Social Control for Peace

ایک عظیم امن پسند کی جدوجہد

امن کے نوبل انعام 20010 کے حقدار لیو شاﺅ بو

ٖ امن و آشتی کو انسانیت کی بلند ترین معراج قرار دیا جاتا ہے جس کے حصول کے لیے کئی افراد نے لازوال قربانیاں دیں اور تمام عمر اس کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی ۔ ان افراد کی خدما ت کے اعتراف کے لیے ہر برس نو بل انعام کی تقریب منعقد کی جاتی ہے اور ان کو دنیا کے اعلٰی ترین امن ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے ۔2010 ءکا امن پیس پرائزچین سے تعلق رکھنے والے منحرف رہنما لیو شاوبو کو دیا گیا جس کے ساتھ ہی نوبل انعام کی یہ تقریب تاریخ کی متنازعہ ترین تقریب بن کر ابھری، جس کا چین اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے بائیکاٹ کیا۔ان کو یہ ایوارڈ ”چین میں انسانی حقوق کی بحالی کے لیے طویل اور پر امن جدوجہد“ کرنے کے صلے میں دیا گیا، جبکہ حیرت انگیز نظارہ یہ تھا کہ ان کو دیا گیا ایوارڈ اور سرٹیفیکٹ سٹیج پر رکھی ہوئی اایک خالی کرسی پر سجا ئے گئے تھے کیونکہ لیو شاوبو اس وقت پابند سلاسل ہیں۔ اس امن ایوارڈ کے لیے دنیا بھر کے دو سو افراد کو نامزد کیا گیا تھا ، جن میں سے لیو شاوبو کو امن ایوارڈ دیا گیا۔۔۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو اس ایوارڈ کا حقدار قرار دےے جانے پر چین اور کئی ممالک کو ایسے شدید اعتراضات کیوں ہیں کہ انہوںنے اس تقریب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔اس امر کا جائزہ لیو شاوبو کی زندگی اور جد وجہد کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔

ا گر چین میں دلائی لامہ کے بعد امن انعام پانے والے دوسرے شخص لیو شاوبو کا مختصر لفظوں میں تعارف پیش کیا جا ئے تو وہ ایک سیاسی رہنما ، یونیورسٹی پروفیسر ، مصنف ، انسانی حقوق کے علمبرادار اور چین کی حکمران کمیونسٹ جماعت کے بہت بڑے نقاد ہیں۔وہ کئی برسوں سے قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ مگر گذشتہ برس حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے الزام میں انہیں گیارہ برس کی قید کی سزا سنائی گئی جس کا مطلب ہے کہ وہ اب 2020ءمیں چینی صوبے لیاونینگ کی جز ہو جیل سے رہائی پائیں گے ۔ اسی قید کے باعث وہ ناروے میں منعقد ہونے والی نوبل پرائز تقریب میں شرکت نہ کرسکے جہاں انہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ۔ دنیا لیو کو چین کے سب سے بڑے باغی کے طور پر جانتی ہے اور انہیںاس وقت مزید شہرت ملی جب ان کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا، تاہم حیران کن طور پر چین کے چند ہی لوگوں نے ان کا نام سنا ہوگا، اس کی وجہ حکومتی سنسر اور نگرانی کی شدید ترین پابندیاں ہیں جو ان پر گذشتہ اکیس برس سے لگی ہوئیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کوئی تحریر چین میں شائع کرنا یا پھر ان کا نام پریس کے کسی بھی حصے میں آنا شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ لیو شاوبو کو یہ امن انعام ملنے کی دیر تھی کہ چین نے ان کی بیوی اور کئی درجن حامیوں کو فوری طور پر نظر بند کردیا تاکہ وہ کسی صورت بھی جیل میں قید لیو کا امن انعام لینے ناروے روانہ نہ ہوسکیں۔علاوہ ازیں چین نے اپنے تمام دوست ممالک کو خطوط لکھے کہ وہ چین کے ایک مجرم کو ایوارڈ نوازنے کی تقریب میں جانے سے گریز کریں ،جس پر اٹھارہ ممالک ،جن میں روس ، سعودی عرب ، پاکستان، عراق اور ایران شامل ہیں، نے اس تقریب کا بائیکاٹ کردیا۔

اگر لیو شاو بو کی زندگی کے حالات کا مختصر احاطہ کیا جائے تو وہ 1955 ءمیں ایک دانشور خاندان میں پیدا ہوئے جس کا اوڑھنا بچھو نا درس و تدریس تھا۔ ان کے والدہ بھی انسانی حقوق کے علمبرداروں میں سے ایک تھے اور بچپن سے ہی وہ لیو کو وہ اپنے ساتھ ہر جلسے اور سیاسی سرگرمی کا حصہ بناتے تھے ، انہوںنے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پیشہ و رانہ زندگی کا آغاز اس نعرے سے کیا کہ چین میں مکمل جمہوریت ہونا چاہےے اورملک میں ایک پارٹی ( کمیونسٹ پارٹی) کی حکومت کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ انہوںنے جمہوری انتخابات اور شخصی آزادی کے لیے باقاعدہ مہم کا آغاز کیااور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس کو اپنی غلطیوں کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہونا چاہےے جبکہ احتساب کے عمل سے بھی گزرنا چاہےے ۔ اسی کی دہائی کے اوآخر میں دنیا بھر میں کمیونسٹ حکومتیں ایک کے بعد ایک اقتدار سے علیحدہ ہونے لگیں جس کے نتیجے میں چین میں بھی کمیونسٹ حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا ۔1989ءمیں اپریل کے مہینے قریباً ایک لاکھ افراد جن میں طلبا اور دانشور تھے، نے بیجنگ کے تیاننم سکوئر میں ملک میںایک اپوزیشن لیڈر کے قتل پر احتجاج شروع کیا جس میں دھیرے دھیرے جمہوریت بحالی اور اقتصادی ترقی کا مطالبہ بھی شامل ہوگیا ۔ یہ احتجاج سات ہفتے تک چلے جو رفتہ رفتہ چین کے دوسرے شہروں میں بھی پھیلنے لگے ۔ جس پر چار جون کو فوج کو طلب کرلیا گیا ،مظاہرین اور فوج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ۔ ایسے میں لیو شاوبو ، جو ان مظاہروں کے روح روا ں تھے ،نے مظاہرین کو اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ فوج سے ٹکراو سے گریز کریں تاکہ خون خرابہ نہ ہو۔ان کے کہنے پر ایک بڑی تعداد جلسہ گاہ سے چلی گئی مگر پھر بھی یہ فوج اور مظاہرین کا ٹکراو ہو ا جس کے نتیجے میں ساٹھ کے قریب فوجی اور چار سو کے قریب مظاہرین مارے گئے۔ اس کے فوراً بعد لیو شاوبو کو بدامنی پھیلانے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

اس قید سے رہائی کے بعدبھی لیو نے اپنی جدو جہد سے قطع تعلق نہیں کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھی ، وہ نوے کی دہائی میں گاہے بگاہے جیل یاترا کرتے رہے۔اسی دوران انہوںنے شادی بھی کر ڈالی اور جب 1999ءمیں وہ ایک سزا مکمل کرکے گھر پہنچے تو ان کے گھر کے اندر ایک باقاعدہ سنتری پوسٹ بنادی گئی تھی تاکہ ان کے فون اور اانٹرنیٹ کو ریکارڈ کیا جاسکے۔ یہاں سے لیو شاوبو کے مغرب اور امریکہ کے ساتھ رابطوں کی خبریں بھی عام ہونے لگی ، انہوںنے ایک دفعہ چین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر رپورٹ تیار کرنے کی کوشش بھی کی مگر حکام نے کاروائی کرکے ان کے گھر سے کمپیوٹر اور کاغذات وغیرہ اپنے قبضے میں لے لیے۔ اس پر ’Reporters Withour Borders“ نامی بین الاقوامی تنظیم نے انسانی حقوق کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو ایوارڈ سے نوازا ۔

2008ءمیں لیو شاوبو نے چین کے 350دانشوروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان کے ساتھ مل کر ملک میں جمہوریت نفاذ کرنے کامطالبہ کیا اور اس ضمن میں ایک چارٹر پر دستخط کےے جو ’Charter08“ کے نام سے مقبول ہوا۔یہ Charter77کی ہی ایک طرز تھی جو کسی زمانے میں سویت یونین کے خلاف جاری کیا گیا تھا۔اس چارٹر کو تیار کرنے کا مرکزی خیال لیو شاوبو کا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں آزادی رائے ، شخصی آزادی اور جمہوریت ہونی چاہےے۔ لیکن یہ ایک ایسا جرم تھا جو حکمران کمیونسٹ پارٹی کو ہر گز منظور نہ تھا ، اسی باعث لیو کواس چارٹر کو پیش کرنے سے دو روز قبل ہی گرفتار کرلیا گیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوںنے ریاست کے خلاف سازش کرتے ہوئے عوام کر بھڑکانے کی کوشش کی ہے اور ان کے اقدام سوشلسٹ نظام کے خلاف ہیں ۔ ان کے مقدمے کی سماعت کے وقت امریکی اور مغربی نمائندوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی عدالت میں رہنے کی کوشش کی مگر ان کو حکومت کی جانب سے اجازت نہ مل سکی۔لیو کو گیارہ برس کی جیل قید سنادی گئی ،جس پر دنیا بھر کی حکومتوں کی جانب سے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا لیکن چین نے اس کو ملکی آزادی میں

مداخلت قرار دے کر مسترد کردیا۔

لیو شاوبو کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی خبریں رواں برس میں جنوری کے مہینے میں گردش کرنے لگیں جب ناروے کے ایک چینل یہ خبر دی کہ اس دفعہ امن انعام کے لیے دو سو سے زائد نامزدگیاں ہیں اور زیادہ امکانات یہ ہیں کہ یہ ایوارڈ چینی منحرف رہنما لیوشاوبو کو دیا جائے گا۔اس پر چین کے دفتر خارجہ نے نوبل پرائز کمیٹی کو یہ مراسلہ بھیجا کہ ایسا کوئی قدم اٹھانا عقلمندی نہیں کیونکہ لیو ، چین کی ریاست کا مجرم ہے اور اس کو یہ ایوارڈ نوازنے کا مطلب ہمارے خلاف قدم اٹھانا ہے۔لیکن ناروے نوبل کمیٹی نے اس دباو کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لیو نے آج تک پر امن جد وجہد کی ہے جس میں تشدد کا عنصر کبھی غالب نہیں آیا۔ وہ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ریاست کے مجرم کیسے ہوئے ، یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی ۔جس کے کچھ دن بعد ہی لیو شاوبو کو امن ایوارڈ دینے کا اعلان کردیا گیا ۔ اس پر چین نے ناروے کے سفیر کو دفتر طلب کرکے ان سے اس فیصلے پر احتجاج کیا مگر اس کے ساتھ ہی امریکی صدر نے لیو کی رہائی کا مطالبہ بھی داغ دیااور کہا کہ چین نے اقتصادی ترقی تو کی مگر سیاسی اصلاحات نافذ نہیں کیں۔

امن ایوارڈ کی تقریب کے بائیکا ٹ کے ساتھ چین نے اپنا احتجاج تو بھرپور انداز میں ریکارڈ کروایا اور اپنے ہمنوا ممالک کو بھی اس میں شرکت سے روکا ۔لیکن محسوس یہی ہوا کہ چین کا یہ جارحانہ رویہ وہ بھی انسانی حقوق کے ایک پر امن علمبردار کے خلاف ، ایک منفی تاثر ہے جو اس کے خلاف قائم ہواہے۔ بہرحال چین نے یہ انعام لیو شاوبو کو دینا ، ایک سیاسی ڈھونگ قرار دیا ہے جس کی آڑ میں اس کی خودمختاری میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن دنیا کے اس عظیم امن پسند کو نوبل انعام دئیے جانے کا بھر پور انداز میں خیر مقدم بھی کیا جا رہا ہے ۔

Comments