Friday, August 19, 2011

پاکستانی اسکولوں کی اکثریت بجلی، بیت الخلاء اورپینے کے پانی کی سہولتوں سے محروم

Shareپاکستانی اسکولوں کی اکثریت بجلی، بیت الخلاء اورپینے کے پانی کی سہولتوں سے محروم
لاہور (رپورٹ : شاہین حسن) بحیثیت ملک تعلیم کے شعبے میں ہماری کارکردگی کبھی بھی قابل قدر نہیں رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تعلیم کے فروغ کا ملکی ترجیحات میں شامل نہ ہونا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اکنامک سروے آف پاکستان 2009-10 کے مطابق 2006-07 میں ملک کی کل قومی پیداوار میں سے حکومتی سطح پر تعلیم پر صرف کرنے کے لئے 2.5 فیصد رقم مختص کی گئی جو 2009-10ء میں کم ہو کر 2 فیصد رہ گئی۔ ملک میں تعلیمی نظام کا اندازہ تعلیمی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر) سے لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹکس 2009-10ء کے مطابق ملک کے 15 ہزار (9.8 فیصد سرکاری) اسکولوں کی سرے سے بلڈنگ ہی نہیں اور ان اسکولوں کے بچے کھلے آسمانوں تلے گرمی اور سردی کی شدت کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ 53 ہزار (32.7 فیصد) سے زائد اسکولوں میں طلبہ کے لئے پینے کے پانی کا کوئی انتظام نہیں۔ 57 ہزار (35.4 فیصد) اسکولوں میں بیت الخلا کا کوئی وجود نہیں ہے جس سے بچوں خصوصاً بچیوں کا مشکل حالات میں تعلیم کے حصول کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ ملک میں سب سے زیادہ 96 ہزار (59 فیصد) سے زائد سرکاری اسکول بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ بنیادی سہولتوں سے محروم اسکولوں کا اگر صوبوں کی سطح پر موازنہ کیا جائے تو بجلی کی سہولت سے محروم کل اسکولوں میں سب سے زیادہ 41 فیصد اسکول صوبہ سندھ میں ہیں۔ پنجاب میں بجلی کی سہولتوں کے بغیر چلنے والے اسکول 24 فیصد خیبر پختون خواہ 13 اور 10 فیصد بلوچستان میں ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملک میں بیت الخلا، پینے کے پانی، چار دیواری اور بغیر بلڈنگ اسکولوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی صوبہ سندھ میں ہی ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2010-11ء کے مطابق ملک کے بیت الخلا سے محروم کل اسکولوں میں سے 37.5 فیصد، پانی سے محروم، 44.7 چار دیواری کے بغیر 44.9 جبکہ بلڈنگ سے محروم 67 فیصد اسکول سندھ میں ہیں۔ پنجاب میں 21.8 فیصد اسکول بیت الخلا 13 فیصد پینے کے پانی 21.8 فیصد چار دیواری اور 6.6 فیصد اسکولوں کی بلڈنگ نہیں ہے۔ خیبر پختون خواہ میں 12.6 فیصد اسکول بیت الخلا 16.9 فیصد پینے کے پانی 15.6 فیصد چار دیواری اور 2.6 فیصد بغیر بلڈنگ کے اسکول ہیں جبکہ ملک کے کل بیت الخلا سے محروم اسکولوں میں سے 14.6 فیصد بغیر چار دیواری کے 2.6 اور بلڈنگ سے محروم 4.7 فیصد اسکول بلوچستان میں ہیں۔ منسٹری آف ایجوکیشن کے اعداد و شمار کے مطابق دیہاتوں میں 65.5 اسکولوں میں بجلی، 40.6 فیصد میں پانی، 38.5 فیصد میں بیت الخلا اور 40.2 فیصد اسکولوں کی چار دیواری نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں شہری علاقوں میں 35.8 فیصد اسکول بجلی، 6.7 فیصد پانی، 30 فیصد بیت الخلا اور 27.9 فیصد چار دیواری کی سہولت سے محروم ہیں۔ مجموعی طور پر ملک میں سہولتوں سے محروم کل اسکولوں میں سے 88 فیصد بجلی، 96 فیصد پانی، 83 فیصد بیت الخلا اور 85 فیصد چار دیواری کے بغیر اسکول دیہاتوں میں ہیں۔

Membership of APSA_EA is open for all....

Thursday, January 27, 2011

تاریخ کا ہیرو

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم ِولادت پر خصوصی مضمون

اکبر ایس احمد

نومبر1995ءمیں نشر ہونے والے شہزادی ڈیانا کے انٹرویو نے کچھ ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو میرے موضوع سے متعلق ہیں۔ ہم نے اپنے عہد کی اس افسانوی شخصیت کا اندازہ لگایا جسے بے جا مداخلت کرنے والا بے ادب میڈیا گھیرے ہوئے ہے۔ مختلف ثقافتی اور سیاسی تناظر میں پیدا ہونے والی کہانیوں سے تشکیل پانے والے حقائق میں اصل ڈیانا کون سی ہے؟ بری بیوی، چالاک سازشی یا 1990ءکی دہائی کی عظیم خاتون یا انگریز شہنشاہیت کو تباہ کرنے والی عورت؟ تو پھر کیا ہیرو شخصیات اب محض ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔ محض کارلائل کے زمانہ کی یادگار؟

ہم ان سوالات کا تجزیہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے تجزیہ سے کریں گے۔ جناح کو ہیرو قرار دیا جاسکتا ہے اگر اس اصطلاح کی تعریف ان معنوں میں کی جائے کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کے دل ودماغ اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حامل تھے، جنہوں نے تقریباً ناممکن کام کر دکھایا (ایک قومی ریاست کی تشکیل) اور (انگریزوں، ہندووں اور سکھوں کی) ایک بہت سنجیدہ اور بڑی مخالفت کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کی۔

اسلام نے برصغیر کے مسلمانوں کو شناخت کا احساس دیا۔ مغلوں اور دوسرے شاہی خاندانوں نے انہیں زمینیں دیں اور علامہ اقبال جیسے شاعروں نے ان میں اپنی منزل کا تصور اجاگر کیا۔ جناح کی شخصیت کی عظمت اس حقیقت سے سامنے آتی ہے کہ تحریک پاکستان کی رہنمائی اور پاکستان کی تخلیق کے دوران انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ تینوں چیزیں دیں۔

یہ کہانی برصغیر کے مسلمانوں کے عروج کے بعد مکاری اور فریب کاری کے ذریعے ان کے درجہ بدرجہ زوال حتیٰ کہ1857ءکے حتمی انجام سے شروع ہوتی ہے۔ اس سال مسلمانوں نے اپنی گزشتہ عظیم سلطنت کی آخری یادگار بھی گنوادی۔ جب ایک دہائی کے بعد ہنٹر نے مسلمانوں کے متعلق لکھا تو اس سے بہت پہلے انہیں اپنے مستقبل کے متعلق خطرات کا احساس ہوگیا تھا۔ اگلی صدی کے دوران یہ احساسات بڑھتے رہے۔ بنگال کی تقسیم کے کچھ سالوں بعد ہی 1911ءمیں بنگالی مسلمانوں سے ان کا صوبہ چھین لیا گیا اور1964ءمیں اسلام کی سیاسی قوت کا استعارہ سلطنت عثمانیہ بھی ختم ہو گئی۔

گاندھی کے منظر عام پر آنے اور اس کی بدولت ہندو برادری کو تحفظ اور اعتماد کا احساس ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں مزید بے چینی پیداہوئی۔ راشٹریہ سیوک سنگ اور دوسری ہندو انتہا پسند جماعتیں1920ءکی دہائی میں قائم ہونا شروع ہوئیں اور ایک تسلسل کے ساتھ منظم فرقہ وارانہ تشدد کا آغاز ہوگیا۔1930ءکی دہائی میں ایک ہندو نظریہ ساز گولواکر اس بات کا پرچار کررہا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جائز ہے جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا۔ مسلم لیگ کی تحقیق پیر پور رپورٹ کی صورت میں متشکل ہوئی جس میں سنگین نوعیت کے الزامات کی ایک طویل فہرست تھی۔ اس مایوسی کے عالم میں مسلمانوں نے کسی ہیرو شخصیت کی تلاش شروع کردی۔

30ءاور40ءکی دہائیوں میں جناح کی تحریک نے مسلمانوں کے زوال کو روکا اور اسے ناقابلِ تردیدفتح میں تبدیل کردیا اور پاکستان کی تخلیق کی جو اس وقت دنیا کی دوسری بڑی اسلامی مملکت تھی۔ جناح جدید صلاح الدین ایوبی بن گیا، اگرچہ یہ صلاح الدین شاہی انگریزی بولتا تھا اور انگریزی لباس کا شوقین تھا جس کا ذوق اسے لنکن ان میں قیام کے دوران پیدا ہوا تھا۔ ماضی کے مسلم ہیرو یا تو حکمران تھے یا جاگیردار یا جہاد کی بات کرنے والے مولوی تھے یا صوفی۔ جناح کا تعلق ان میں سے کسی کے ساتھ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ کئی لوگوں کی نظروں میں جناح بہت زیادہ مغربیت زدہ تھے۔ بہت زیادہ قانون پسند تھے اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے ضرورت سے زیادہ علمبردار تھے۔ ان حقائق کے تناظر میں جناح کا معروف لیڈر بننا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔

اس کے باوجود جناح کی شخصیت برصغیر کے مسلمانوں کے رگ وپے میں سرایت کر گئی جس نے ان کے اندر جوش وولولہ پیدا کیا اور عوام ان کی پرستش کرنے لگے۔” وہ ایک خدا کی طرح تھے۔ اگرچہ ہم مسلمان انہیں خدا نہیں کہہ سکتے۔ وہ ہماری نجات تھے“۔ یہ الفاظ سر عبداللہ ہارون کی بیٹی زینت کے تھے جب انہوں نے1940ءمیں قائداعظم کو پہلی مرتبہ دیکھا۔ یحییٰ بختیار نے1943ءمیں قائداعظم کی ایک تصویر اتاری جس میں وہ مسلم احساس تفاخر کی تجسیم نظر آتے تھے۔ یحییٰ بختیار، جو اب سینیٹر ہیں، ان احساسات کو یاد کرتے ہیں جو قائداعظم کو پہلی مرتبہ دیکھتے ہوئے ان کے دل میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ٹرک کی چھت پر بیٹھے تھے اور ہزاروں پر جوش لوگوں نے انہیں گھیررکھا تھا۔

ایسا لگتا تھا کہ وہ دہلی کے فاتح ہیں“۔

پاکستانیوں نے قائداعظم کی شخصیت کو افسانوی ہیرو کا درجہ دیا۔ لیکن پاکستان کے باہر ہندووں اور انگریزوں کے زیر قبضہ ذرائع ابلاغ نے انہیں انگریز راج کے آخری سالوں میں ہونے والے سیاسی ڈرامے کا ولن قرار دیا۔ دلائل یہ ہیں کہ جناح پاکستان کا مطالبہ کرتے تھے کیونکہ وہ ”خبطی“،”جنونی“،”مغرور“ اور”خبطِ عظمت“ کا شکار تھے۔( ان میں سے کچھ الفاظ ماونٹ بیٹن اور نہرو نے استعمال کیے ہیں) یہاں تک کہ ماونٹ بیٹن نے قائداعظم کے بارے میں انگریزی حروف” بی“ سے شروع ہونے والا نہایت ہی نازیبا لفظ استعمال کیا۔ مسلم جدوجہد کو فرد واحد کے تناظر میں دیکھنے اور جناح کی تذلیل کرنے کے رویہ نے ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کے احساسات کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے۔

ماونٹ بیٹن کے خیالات کو، جو پہلے وائسرائے تھے اور جنہوں نے میڈیا کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے ایک کندہتھیار کے طور پر استعمال کیا، کئی ابلاغی اداروں نے مشتہر کیا جن میں بی بی سی کی ٹی وی سیریل خاص طور پر قابل ذکر ہے جو ان کی زندگی پر بنائی گئی تھی۔ ایسی کتابیں شائع کی گئیں جن کے عنوانات میں ماونٹ بیٹن کے لیے تقدیس تھی مثلاً کیمپ بیل۔

جانسن کی” ماونٹ بیٹن کا مشن“(1953ئ) ماونٹ بیٹن کی فلم دیکھتے ہوئے تکلیف دہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے کان کچھ اور سن رہے ہیں اور آنکھیں کچھ اور دیکھ رہی ہیں۔ پہلی مرتبہ جب قائداعظم کو ماونٹ بیٹن اور ان کی اہلیہ سے ملاقات کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے تو قہقہے اور ہنسی مذاق واضح نظر آتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جناح نے گھر واپس آکر ماونٹ بیٹن کے متعلق بہت گرم جوشی سے گفتگو کی لیکن ماونٹ بیٹن کی رائے تھی” میرے خدایا! بہت سرد مہر آدمی تھا“۔

سررچرڈ ایٹن بورو کی فلم ”گاندھی“ سیدھے سیدھے ماونٹ بیٹن کے تعصبات کی توثیق کر دیتی ہے۔ یہ ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ اس فلم کو نہرو اور ماونٹ بیٹن کی نام موسوم کیا گیا اور اس کی تشکیل میں اس وقت کی بھارت کی وزیراعظم اور نہرو کی صاحب زادی اندرا گاندھی نے بہت ماونت کی تھی۔” گاندھی“ میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اس فلم کو دیکھ کر لاکھوں لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا ہو کہ قائداعظم محمد علی جناح بدخُو اور مفسد تھے۔ المیہ یہ ہے کہ کئی نوجوان پاکستانی خاص طور پر برطانیہ میں رہنے والے قائداعظم کو اسی فلم سے جانتے ہیں۔ اس عالم میں ذرائع ابلاغ کی حقائق کو مسخ کرنے کی طاقت اور اپنے ہیرو سے نوجوانوں کی عمومی لاعلمی ثابت ہوجاتی ہے۔

ماونٹ بیٹن کا یہ لائحہ عمل بہت مشکل تھا کہ ہندوستان کو متحد رکھا جائے اور اقتدار پر امن طور پر ہندوستانیوں کے حوالے کردیا جائے۔ لیکن ہندوستان میں اپنی آمد کے بعدانہوں نے غیر جانبداری کو ترک کر کے اس مقصد کو اور زیادہ مشکل بنا لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا منصوبہ” پاگل پن“ تھا، اگرچہ اسے ہندوستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل تھی۔ جناح نے درست طور پر ماونٹ بیٹن کی درخواست رد کی کہ تقسیم کے بعد اسے پاکستان اور بھارت کا مشترکہ گورنر جنرل بنا دیا جائے۔ ماونٹ بیٹن نے قائداعظم سے پوچھا تھا ”کیا تمہیں احساس ہے کہ تمہیں اس کی کیا قیمت چکانا پڑے گی؟“۔ جناح کا جواب تھا ”کئی کروڑ روپے“ پھر ماونٹ بیٹن نے کہا” یہ تمہیں تمہارے تمام اثاثوں اور پاکستان کے مستقبل سے محروم کرسکتی ہے؟“ یہ واضح ہے کہ اگر جناح پہلا پاکستانی تھا تو ماونٹ بیٹن پہلا پاکستان مخالف تھا۔

ماونٹ بیٹن اور محمد علی جناح کے مابین ہونے والے اعلیٰ سطح کے خفیہ اجلاسوں کے نوٹس ہمیں ان دونوں کرداروں اور ان کے مقاصد سے متعلق ان کی حکمت عملی کے بارے میں بتاتے ہیں۔ قائد اعظم ہر صورت میں پاکستان چاہتے تھے اور کوئی بھی چیز انہیں اس سے نہیں روک سکتی تھی۔ ماؤنٹ بیٹن کی ہر سنہری پیشکش کو انہوں نے دھتکار دیا۔ ہر دلیل اور دھمکی کی مزاحمت کی۔ ماؤنٹ بیٹن محمد علی جناح کے دو اہم صوبوں پنجاب اور بنگال کو آدھا آدھا کاٹ دے گا، ماؤنٹ بیٹن جناح کو فوج نہیں دے گا، ماؤنٹ بیٹن نے محمد علی جناح کو متحدہ انڈیا کی وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی۔ ہر لالچ اور دلیل کی ناکامی نے بالآخر ماؤنٹ بیٹن کو مشتعل کر دیا۔ جناح کو لنگڑا لولا اور تباہ حال پاکستان قبول کرنا تھا یا پھر ماؤنٹ بیٹن، انہیں کسی بھی طرح کی کوئی پیشکش کیے بغیر اقتدار کانگریس کو منتقل کر کے انڈیا کو چھوڑ جانا تھا۔ یہ بات ناپختہ تھی لیکن وقت قائد کے ہاتھ سے تیزی سے نکل رہا تھا اس لیے قائد کے پاس ایک ہی انتخاب تھا جیسا کہ محمد علی جناح نے کہا کہ ”کرم خوردہ“ اور ”کٹا پھٹا“ پاکستان یا پھر کچھ بھی نہیں۔ صاف ظاہر ہے قائد اعظم کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا جو انہوں نے اپنایا۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن کی صرف ایک ہی حکمت عملی تھی کہ وہ ہر طرح پاکستان کے حقیقی تصور کو صوبائی (پنجاب اور بنگال)، ضلعی (گوردارسپور اور فیروز پور)، ریاستی (کشمیر) کی سطح پر قتل کر دیتے۔

ماؤنٹ بیٹن نے پنجاب سے برطانوی افواج کو وعدہ کرنے کے باوجود وہاں سے ہٹا لیا جس کی وجہ سے وہاں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے، نتیجتاً 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے (ماؤنٹ بیٹن نے ایک طویل عرصے تک ان اعداد و شمار کو چھپائے رکھا)۔ بالآخر ابتدا ہی میں اثاثوں کی تقسیم میں پاکستان کے حصہ کو دبا لیا گیا۔ گاندھی کے احتجاجاً مرن بھرت رکھنے پر کچھ حصہ پاکستان کو دیا گیا۔

اگر مورخین نے جناح کی ذات کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے تو یہ بھی درست ہے کہ انہوں نے ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن (ماؤنٹ بیٹن کی بیوی) اور نہرو کے درمیان عشق و محبت کے معاملات کی بھی پردہ پوشی کی ہے۔ اب شائع ہونے والے خطوط، تصاویر ان دونوں کے مابین گہری دوستی اور پُرلطف تعلقات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اعلیٰ سطحوں پر زنا کاری جیسے معاملات پر مسحور ہونے کے بجائے، جیسا کہ پینوراما پروگرام کا مرکزی نقطہ تھا، ہمیں پٹڑی سے نہیں اترنا چاہیے۔ ہمیں صرف اس رومانوی تعلق سے تقسیم کی سیاست پر رونما ہونے والے اثرات میں دلچسپی ہے جس سے جناح اور اس کا پاکستان کئی طرح سے متاثر ہوا۔

کیا نہرو نے ایڈوینا کو دیوانہ نہیں کر دیا تھا، وہ اس قابل نہیں تھا کہ جناح کے بارے میں اسے مکمل طور پر قائل کر سکے، وہ اس قابل بھی نہیں ہو گاکہ مستقبل کی ریاستوں، پاکستان اور انڈیا، کے بارے میں تقسیم کے منصوبے اور اہم معلومات حاصل کر کے اور فرمانبردار وائسرائے کے فیصلوں پر اثر انداز نہ ہو سکے۔

خفیہ طور پر مستقبل کی ریاستوں کی حد بندی کو دیکھنے کے بعد جب نہرو نے انہیں تبدیل کرنے پر اصرار کیا تھا تو ماؤنٹ بیٹن نے اس کا دوبارہ خاکہ کھینچا تھا۔ نہرو نے جب شمال مغربی سرحدی صوبہ کے گورنر سر اولف کارو کے بارے میں شکایت کی تو ماؤنٹ بیٹن اسے برخاست کرنے پر فوراً تیار ہو گیا۔

ایڈوینا نے بہت موثر انداز میں عوامی سطح پر نہرو اور اس کے مقصد کے لیے مہم چلائی۔ ایک طاقتور اور امیر عورت ایڈوینا نہ صرف اپنے شوہر پر اثر انداز ہوئی بلکہ اس نے لندن کی اہم شخصیات کو بھی اپنا ہمنوا بنایا۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ ایڈوینا کا دورہ کشمیر واضح طور پر نہرو کی حمایت میں ایک سیاسی بیان تھا، اس معاملہ کا برطانوی ذرائع ابلاغ نے خوب چرچا کیا۔ یہ ایک غیر معمولی اور بہت اہم بات تھی کیونکہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی بھی مقامی باشندے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی اعلیٰ نسب خاندان سے ہو، کی رسائی وائسرائے کے گھر تک نہیں ہوتی تھی جبکہ نہرو ایک ایسے شخص کی شکل میں نمودار ہوا جو وائسرائے کے دفتر کو اس کے بیڈ روم سے کنٹرول کرتا تھا۔

برطانوی مورخوں نے عمومی طور پر اس معاشقے کو یا تو نظرانداز کر دیا یا اسے دھندلا دیا۔ یہاں تک کہ فلپ زیگلر نے 1985ءمیں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی 800 صفحات پر مشتمل جو ”سرکاری سوانح حیات“ لکھی اس میں بھی مصنف نے ان کی دوستی کو جلد بازی میں صرف چند پیرا گرافوں میں بیان کیا جن میں صرف اس کی خوبصورتی پر زور دیا گیا۔ بایں ہمہ ماؤنٹ بیٹن کا تعلق شاہی خاندان سے تھا اور اس کے بھتیجے نے ملکہ سے شادی کی تھی۔ ماؤنٹ بیٹن ایک شاندار جنگی ہیرو بھی تھا۔ ایسی صورت حال میں آج بھی ایک کنٹرولڈ میڈیا اور دوستانہ دیومالا حقیقت کی صورت گری کرتے ہیں۔

ابتدائی دہائیوں میں بھارت کے اندر بھی نہرو کے لیے عزت کی وجہ سے وہاں خاموشی طاری رہی۔ بھارت کے صدر رادھا کرشنا کے بیٹے سروپالی گوپال کی کتاب کی تین بڑی جلدیں، جن میں نہرو کا مطالعہ کیا گیا ہے، میں بھی نہرو اور ایڈوینا کے تعلقات سے صرف نظر کیا گیا ہے، لیکن یہاں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ پاکستانی سکالر ماؤنٹ بیٹن سے اس قدر تعلق کو دریافت کرنے اور اس کے تقسیم کے عمل پر رونما ہونے والے اثرات کو منظر عام پر لانے میں کیوں ناکام رہے۔ شریف المجاہد کی کراچی سے شائع ہونے والی 800صفحات پر مشتمل اتھارٹیٹیو سٹڈی آف جناح میں ایڈوینا کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔

مورخین ہمارے سامنے ماؤنٹ بیٹن کی مکمل تصویر پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جناح کے بارے میں ماؤنٹ بیٹن کا برطانوی موقف وسیع طور پر قبول کیا گیا اور جب دوسری نسل نے اس پر تبصرہ شروع کیا تو اس موقف کو ان کی صحافتی تحریروں میں داخل کیا گیا (کرسٹینا لیمب اور ایما ڈنکن اس کی مثال ہیں) تو چند لوگوں نے اسے چیلنج کیا۔ گزشتہ چند سالوں میں اینڈریو رابرٹ جیسے کچھ نوجوان برطانوی مورخوں نے تقسیم ہند کی روایت دیو مالا کو مسترد کر دیا اور اس عمل میں ماؤنٹ بیٹن کے کردار کی خوب خبر لی۔ ارون شورائی جیسے ہندو اور ایم جے اکبر جیسے مسلمان دونوں نے جناح کے بارے میں منفی معیار والے موقف کو قبول کیا۔ تاہم کچھ نمایاں ہندوستانیوں، جن میں نرد چودھری، راج موہن گاندھی اور ایم ایم سروائی شامل ہیں، نے اس سٹیریو ٹائپ معیار کو چیلنج کیا ہے۔

نرد چودھری نے اپنی سٹڈی آف انڈیا فرام 1921-52ء”دی ہینڈ گریٹ انارک“ میں لکھا ہے کہ ”محمد علی جناح وہ واحد آدمی ہے جو ہندوستان میں برطانوی استعمار کے ذلت آمیز خاتمہ میں کامیابی اور عزت سے باہر آیا“۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں محمد علی جناح کی اتنی خدمت نہیں کی گئی جس کی ضرورت تھی۔ پاکستان اپنی مقامی مارکیٹ میں قائد پر ایک بھی بین الاقوامی معیار کی سوانح عمری پیش نہیں کر سکا۔ قائد اعظم کے بارے میں لکھی جانے والی دو بہترین سوانح عمریاں غیر ملکیوں، ہیکٹر بالیتھو نے 1950ءاور سٹینلے والپرٹ نے دس سال پہلے لکھیں۔ ابھی تک پاکستان اس قابل نہیں ہوا کہ وہ جناح پر ایک ایسی مشہور فلم بنا سکے جس میں جناح کی کہانی بیان کی گئی ہو۔ اٹین بورو کی فلم اس لیے بہت یادہ پاور فل تھی کیونکہ اس نے اس وقت یہ کام کیا جب یہاں مکمل خلا تھا۔

زینت اور بختیار جیسے کئی پاکستانیوں کو یقین ہے کہ پاکستانی سیاستدان جناح کے اعلیٰ تصورات کی وجہ سے مشکل میں ہیں اسی لیے انہوں نے قائد اعظم کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور ان سے عقیدت صرف لفظوں کی حد تک محدود ہے۔ ان کی تصویر کرنسی نوٹ پر ہے یا دفاتر میں دیواروں پر لٹکانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ سوانح عمری کسی ایک فرد کی زندگی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جس میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے دوست کون تھے اور نقاد کون۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ سوانح عمری اور تاریخ اتنی ہی درست ہو جتنا کوئی حقیقت ممکن ہے.... اور وہ ثقافتی اور سیاسی تعصبات کی عکاس نہ ہو.... تو ہمیں اپنی سوچ کے دھاروں اور طریقیاتی پہنچ کو وسیع کرنا ہو گا۔ علاقائی، ثقافتی، بشریات اور عام لوگوں سے انٹرویو کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان چیزوں نے بہت سارے مورخین کی تنگ نظری پر مبنی اور گمراہ کن حقیقتوں کو درست کرنے میں مدد دی ہے۔ کسی بھی طبقے کی طرف سے جاری کردہ دیو مالا، جس میں دوسروں کے کردار کو منفی طور پر اور تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہو، کو چیلنج کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سکولوں اور کالجوں کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے طلبا کو ہمسایہ ملکوں کی ہیرو شخصیات کے بارے میں تعلیم دیں۔ اسرائیل عربوں کے بارے میں، بھارت پاکستانیوں کے بارے میں اور یہ ملک بھی اسی طرح کریں۔

اسی طرح پاپولر ذرائع ابلاغ کو بھی مستقل طور پر یہ یاددہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ مسبوکہ باتیں نہ دہرائیں (مثلاً جناح سرد مہر تھے، وہ کبھی مسکراتے نہیں تھے، مسلم عظمت رفتہ) یہ اختصار نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ ڈیانا اور اس کی پیش رو ایڈوینا کے درمیان صرف ایک نسل کا فاصلہ ہے لیکن معاشرتی اقدار، طاقت اور میڈیا کے اصول و قواعد میں بنیادی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ ایڈوینا اور ماؤنٹ بیٹن نے جو کچھ اس وقت کیا اگر وہ آج کے ثقافتی ماحول میں ایسا کرتے تو فرار نہ پا سکتے۔

برطانیہ اور اس جیسے ممالک، جہاں ایسا دانشورانہ اور ثقافتی رجحان ہے کہ جس میں ہیرو شخصیت کے کپڑے اتارے جاتے ہیں، شاید بہت آگے تک پہنچ چکا ہے۔ وہ تمام لوگ جو ایک مرتبہ ہیرو کے استھان پر رہے ہیں صحافتی بغض اور عداوت کا نشانہ ہیں یا سوانح نگار ان کے کارناموں کے بجائے ان کی جنسی زندگی میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ کوئی بھی نمایاں شخصیات خواہ وہ وزیر اعظم ہو یا شاہی خاندان کا کوئی فرد کیا وہ موجودہ افراتفری کے ماحول میں عداوتی روایت شکنی کے اس ”گٹر پریس“ سے اپنی عزت طویل عرصے تک بچا سکا ہے۔ ایسی عوامی شخصیات کی غیر موجودگی، جن پر ہم بھروسہ کر سکتے ہوں، نے عمومی عالمی خطرات اور روایتی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ، وسیع پیمانے پر پھیلتے لسانی اور مذہبی تشدد نے امن اور بھائی چارے کی دائمی فضا کے بارے میں پریشانی پیدا کر دی ہے۔ اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا۔ سربیا کے صوبہ کوسووو کا میدان جنگ ہو یا یروشلم اور ایودھیا کی عبادت گاہ، یہی ایک وجہ ہے کہ لوگ کیوں ماضی کی آسان اور یقینی دیو مالا کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

مسلم دنیا بھی اپنے استبدادی فوجی آمروں، تنگ ذہن مذہبی شخصیات اور بدعنوان جذبات انگیز خطیبوں کی وجہ سے صلاح الدین ایوبی کی تلاش میں ہے۔ محمد علی جناح کی دوبارہ جانچ پڑتال نہ صرف انصاف بلکہ سچائی کی تلاش کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت جبکہ ہمیں ایک روشن خیال اور دیانتدار و قابل عمل مسلم رہنما کی مثال کی ضرورت ہے وہ بھی مل جائے گی۔

ہمیں اس وقت اپنے دور کو برا اور خبطی کہنے کے بجائے اس میں موجود ان ہیرو شخصیات کو پہچاننے کی ضرورت ہے جو ہمارے درمیان موجود ہیں، جو ان لمحات میں اپنے لوگوں کے لیے لطیف تمناؤں اور آدرشوں کی صورت گری کر سکیں۔

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان ایک غیر ذمہ دار تنظیم؟

ٹی آئی پی کے سربراہ ماضی میں اربوں روپے کی کرپشن میں خود ملوث رہے، چیئرمین این آئی سی ایل

منصور مہدی

ملکی وغیر ملکی غیر سرکاری ادارے اکثر و بیشتر ملکی حالات خصوصاً تعلیم، صحت ، امن و امان، گڈ گورننس اور کرپشن کے حوالے سے سروے و خصوصی رپورٹیں شائع کرتے رہتے ہیں۔ ان میں بعض اداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نیک نیتی سے یہ رپورٹیں بناتے ہیں جبکہ بعض ادارے اپنے اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر کچھ باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

اسی طرح کی ایک رپورٹ گذشتہ سال کے آخر میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے کرپٹ ممالک کے حوالے سے جاری کی تھی۔ جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں بے انتہااضافہ ہوا ہے اور 2009ءمیںپاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 42ویں نمبر پر تھا لیکن 2010ءمیں پاکستان 34ویں نمبر پر آگیا۔

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل ایک گلوبل سول سوسائٹی تنظیم ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ پوری دنیا میں بدعنوانی کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ یہ تنظیم1993ءمیں بنائی گئی جس کا مرکزی دفتر بلجیم کے شہر برسلز میں اور مرکزی سیکرٹریٹ جرمنی کے شہر برلن میں ہے۔ جرمنی میں اس تنظیم کے ساتھ 90کے قریب ادارے منسلک ہیں جو ہر سال جرمنی کے مختلف اداروں میں پائی جانے والی بد عنوانی کے بارے رپورٹیں جاری کرتے ہیں جبکہ بین الاقوامی بدعنوانی کے حوالے سے اس تنظیم کے مزید چار شعبے ہیں جن میں ایک ڈیسک افریقہ اور مڈل ایسٹ کے ممالک میں ہونے والی کرپشن اور ایک امریکا ( جن میں لاطینی امریکا کے ممالک بھی شامل ہیں ) ،ایک ایشیا پیسیفک کے ممالک کیلئے اور آخری شعبہ یورپ اور سنٹرل ایشیا کے ممالک پر نظر رکھتا ہے۔

اس تنظیم کی 178کے قریب ممالک میں شاخیں ہیں ۔ ان میں ایک ” ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان“ کے نام سے پاکستان میں کام کرتی ہے۔ پاکستان میں اس تنظیم کی شاخ فروری2001ءمیں بنائی گئی جس کا صدر دفتر کراچی میں ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو مئی 2002ءمیں ٹرسٹ ایکٹ 1882ءکے تحت کراچی میں رجسٹرڈ کرایا گیا جس کے چیئرمین سید عادل گیلانی ہیں اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سعد رشید ہیں جبکہ مشاورتی کمیٹی میں خورشید انور، واجد جواد، شہانہ کوکب، سید سلیم احمد اور عابد شیخ شامل ہیں۔

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی طرف سے 2010ءمیں جب رپورٹ جاری ہوئی تو اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں اسے خاصی جگہ دی گئی۔ اس پر بحث و مباحث کا سلسلہ شروع ہوا تو ایسے لگتا تھا کہ پہلے جیسی رپورٹوں کی طرح اس رپورٹ پر بھی کچھ دن بحث جاری رہے گی اور پھر بات آئی گئی ہو جائے گی۔ مگر اس رپورٹ سے نہ صرف حکومتی ایوانوں ، سیاسی افراد اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں بحث کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے بلکہ یہ بحث ایک لڑائی کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس رپورٹ کو اگرچہ بہت سی جگہوں پر درست قرار دیا گیا اور متعدد کی جانب سے جانبدارانہ رپورٹ کہلائی جبکہ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمین اور تنظیمی ڈھانچے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ ایک سال کے دوران پاکستان کی وفاقی حکومت کے مختلف محکموں میں 300ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمین عادل گیلانی نے اس کرپشن کی بنیادی وجہ ملک میں احتساب کا کوئی موثر طریقہ کار موجود نہ ہونے کو کہا جس کے باعث کرپشن بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آئی پی نے قومی احتساب بیورو(نیب) کو کرپشن کے چند ایک معاملات سے آگاہ کیا تھا لیکن بیورو نے ایک بھی کیس میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کا سب سے بڑا کیس حکومت کی جانب سے شروع کیا جانے والا رینٹل پاور پراجیکٹ ہے جو فی الوقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ کرپشن کی فہرست میں یہ پراجیکٹ سرفہرست ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ رینٹل پاور پراجیکٹس کے تحت حکومت نے کم از کم 14 ٹھیکے دینے میں پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قواعد کی خلاف ورزی کی۔ اس بات کی نشاندہی ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی رپورٹ میں بھی کی گئی تھی اور اس سے 2 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا۔ عادل گیلانی نے کہا کہ ٹی آئی پی نے سپریم کورٹ کو بھی اس معاملے میں ہونے والی کرپشن اور بے ضابطگی سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آئی پی نے پاکستان سٹیل میں ہونے والی کرپشن کے متعلق بھی کئی اداروں کو لکھا۔ پاکستان سٹیل کی جانب سے سامان کے حصول اور فروختگی کی پالیسی کے نتیجے میں 22 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے کرپشن کے اس معاملے کو نظر انداز کردیا تھا لیکن یہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عادل گیلانی نے پاکستان ریلویز کی جانب سے امریکا کے تیار کردہ 150 لوکوموٹوز (انجن) کے حصول کے ٹینڈر میں بھی پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی بھی بات کی۔

اس رپورٹ پر تنقید اور ٹی آئی پی کے چیئر مین کے حوالے سے تحفظات کا سلسلہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے شروع کیا جب انھوں نے ٹیویٹر ڈاٹ کام پر ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے چیئرمین کیخلاف الزام لگایا کہ عادل گیلانی کو کے پی ٹی سے کرپشن کے الزامات کے باعث نکالا گیا تھا لہٰذا جو شخص کرپشن کی بنیاد پر ملازمت سے نکالا جائے اس کی کرپشن کے خلاف رپورٹ غیرجانبدارانہ نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے ٹر انس پیر نسی انٹر نیشنل کو فراڈ قر ار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم ملک کو نقصا ن پہنچا رہی ہے۔ جبکہ جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبدالروف خان ساسولی نے کہا کہ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمین عادل گیلانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا قریبی عزیز ہونے کاتاثر دے کر لوگوں کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی تھی کہ عوام کو ان کی بلیک میلنگ سے بچایا جائے۔ پاکستان سٹیٹ آئل کے ایم ڈی عرفان قریشی نے کہا تھا کہ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کا چیئر مین پی ایس او کو بلیک میل کرتاہے او ر اس کے لگائے جانے والے تمام الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے سامنے ایم ڈی پی ایس او عرفان قریشی نے بتایا تھا کہ عادل گیلانی 1991ءمیںخود کرپشن کا مرتکب رہا ہے اوراس کو وہاں سے نکالا گیاتھا۔ سند ھ اسمبلی کی قا ئم مقا م سپیکر شہلا رضا کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں ٹرانس پیر نسی انٹر نیشنل کے خلا ف ایک مذمتی قرارداد منظورکی گئی جس کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی شرجیل انعام میمن نے پیش کیا تھا۔شرجیل میمن کاکہنا تھا کہ عادل گیلانی جمہوری حکومت کو بدنام کرنے کی ساز شیںکر رہے ہیں۔شازیہ مری نے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان کو کرپشن کے نام پر بدنام کیا جارہا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ کرپشن کو اپنے ملک کی بدنامی کے لیے استعمال کرنا غداری ہے۔رکن اسمبلی رفیق انجینئر کاکہنا تھا کہ جب سے ملک بنا ہے کرپشن موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ خود ساختہ این جی اوز ملک کمزور کرنے کے لیے کام کررہی ہیں۔

عادل گیلانی نے بھی اپنی صفائی اور رپورٹ کی سچائی کے حوالے سے بیانات دیے اور گورنر پنجاب ، رکن سندھ اسمبلی شرجیل انعام میمن اور دیگر کو قانونی نوٹس بھجوائے۔ گورنر پنجاب کو بھجوائے گئے قانونی نوٹس میںعادل گیلانی نے کہا کہ ”مسٹر سلمان تاثیر آپ نے اعلیٰ حکومتی منصب گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے کسی نو عمر لڑکے کی طرح کے رویہ کا اظہار کیا ہے اور 3 جون 2010ءکو ٹیویٹر پر عادل گیلانی کے خلاف بلا جواز ریمارکس دیے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ یہ ریمارکس غلط ہیں۔ اس طرح عادل گیلانی کونہ صرف عوام میں بلکہ ایک بین الاقوامی سائٹ پر بدنام کیا“۔ کسی ایسے شخص سے یہ توقع کبھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر ہو اور اس طرح کی بچگانہ حرکات کرے جو کسی گورنر کو زیب نہ دے“۔ جبکہ شرجیل انعام میمن کو بھیجے گئے قانونی نوٹس میں عادل گیلانی نے کہا ہے کہ وہ سرعام معافی مانگیں یا پھر ان پر 50 کروڑ روپے ہرجانہ کا دعویٰ کیا جائے گا۔ عادل گیلانی کا کہنا ہے کہ انہیں غیر ملکی ایجنٹ بھی کہا جا رہا ہے۔ لیکن یہ لڑائی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب عادل گیلانی نے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کو ایک خط لکھ کر اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ عادل گیلانی نے خط میں لکھا کہ اس رپورٹ کو جاری کرنے کے بعد انھیں قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہے۔ جس پر ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے سربراہ ہیوگیٹ لیسیلی نے صدر آصف علی زرداری اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں۔

اس پر حکومت پاکستان کی ہدایت پر ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کر دیں۔ ٹرانس پیر نسی انٹرنیشنل کے چیئرمین عادل گیلانی پر نہ صرف سیاسی حلقوں اور سرکاری اداروں کی طرف سے الزامات لگائے گئے بلکہ این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز نیازی اور تین ڈائر یکٹرز نے باقاعدہ ان کے خلاف درخواست بھی دائر کی۔ جس میں انھوں نے عادل گیلانی کو نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (این آئی سی ایل) میں کئی ارب روپے کے سکینڈل میں ملوث قرار دیا۔جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب ظفر قریشی نے عادل گیلانی کو21سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ بھیجا اور ساتھ ہی انھیں23دسمبر کو طلب بھی کیا۔ اس سوالنامے کا عادل گیلانی نے جواب داخل کیا بلکہ انوسٹی گیشن آفیسر کو ایک علیحدہ خط بھی بھیجا جس میں انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اِن سوالات کے جوابات کے بعد 23دسمبر کو ایف آئی اے کومجھے بلانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز نیازی نے ایف آئی اے کو ایک بیان میں بتایا تھا کہ انہیں قاسم امین دادا نے مبینہ طور پر یہ پیشکش کی تھی کہ اگر میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے ساتھ ایم او یو سائن کر لوں تو وہ میرے خلاف سپریم کورٹ میں زیر سماعت کرپشن کے مقدمات ختم کرا لیں گے۔ ایف آئی اے کے 21میں سے صرف پانچ سوالات این آئی سی ایل لینڈ سکینڈل کی چھان بین سے مطابقت رکھتے تھے، جبکہ دیگر تمام سوالات ٹرانس پیرنسی کے سربراہ کے ذاتی پس منظر اور ان کی سرگرمیوں اور یہ کہ ٹرانس پیرنسی پاکستان میں کس طرح کام کرتی ہے سے متعلق ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ملنے کے بعد تفتیشی افسر نے کہا کہ عادل گیلانی نے اپنے جوابات میں کئی جگہ متضاد باتیں کی ہیں اور وہ ایک سوال کے جواب میں دیے گئے اپنے موقف پر دوسرے سوال کے جواب میں ہٹ جاتے ہیں۔ لہٰذا اب ایف آئی اے نے انھیں بذات خود10جنوری کو طلب کر لیا ہے۔

عادل گیلانی اور ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کا کہنا ہے کہ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل ایک کھوج لگانے والی ایجنسی ہے اور اس تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔ قانون کے مطابق یہ صرف میڈیا سے بات چیت کر سکتی ہے اور سرکاری داروں سے اطلاعات اکٹھی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سرکاری افسروں سے معلومات کے عوض رشوت دینے پر اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا حکومت نے اپنی سبکی کو ختم کرنے کے لیے عادل گیلانی کے خلاف تحقیقات شروع کی ہیں یا واقعی وہ جانبدارانہ رپورٹیں جاری کرنے کے ذمہ دار ہیں؟





باکس

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کا کرپشن پری سیپشن انڈیکس مختلف ممالک میں کرپشن کو جانچنے کیلئے دنیا کا سب سے قابل اعتبار پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ کرپشن پری سیپشن انڈیکس کے تحت ممالک کو صفر سے دس تک پوائنٹس دیے جاتے ہیں اورجس ملک کو جتنے زیادہ پوائنٹس ملتے ہیں وہاں کرپشن اتنی ہی کم ہوتی ہے اور جن ممالک کے پوائنٹس کم ہوتے جاتے ہیں وہاں بدعنوانی کی سطح اتنی ہی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔کرپشن پری سیپشن انڈیکس کے ذریعے دنیا کے178 ممالک کی درجہ بندی کی گئی۔ ان میں سے تین چوتھائی ممالک نے صفر سے پانچ تک پوائنٹس حاصل کیے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرپشن بدستور ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان 2.3 پوائنٹس کے ساتھ34 ویں نمبر ہے جبکہ گزشتہ سال پاکستان کا نمبر42 واں تھا۔ فہرست میں پاکستان کے آٹھ درجے نیچے آنے کا مطلب ہے کہ یہاں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی نسبت بھارت بدعنوان ممالک کی فہرست میں90 نمبر پر ہے۔ صومالیہ دنیا کا بدعنوان ترین ملک ہے جبکہ افغانستان اور میانمارمشترکہ طور پر دوسرے نمبر پر ہیں۔رپورٹ کے مطابق عراق کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔اگر دنیا کے سب سے کم بدعنوان ممالک کی بات کی جائے تو ڈنمارک ، نیوزی لینڈ اور سنگاپور9.3 پوائنٹس کے ساتھ مشترکہ طو رپر دنیا کے سب سے کم بدعنوان ملک ہیں جبکہ فن لینڈ اور سویڈن مشترکہ طورپر دوسرے اور کینیڈا تیسرے نمبر پر ہے۔

اسٹیبلشمنٹ سے میڈیا کا تعلق اب اور زیادہ مضبوط ہو گا

صنعتی کاروباری اشرافیہ اور جاگیردار آپس میں گھل مل گئے ہیں

ایسے سیکولر ازم پر بات کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد ہماری اپنی تہذیبی تاریخ پر ہو

عائشہ صدیقہ سے انٹرویو

انٹرویو پینل: عامر حسینی، علی ارقم

عائشہ صدیقہ پاکستان کے اہم اخبارات میں باقاعدہ سے مضامین لکھتی ہیں۔ انہوں نے کنگز کالج لندن سے1996ءمیںپی ایچ ڈی کی۔ وہ ملٹری ٹیکنالوجی، دفاعی شعبے میں فیصلہ سازی، ایٹمی ہتھیاروں، اسلحے کی خریداری، اسلحے کی پیداوار سے لے کر جنوبی ایشیا میں سول، ملٹری تعلقات جیسے موضوع پر کام کر چکی ہیں۔ وہ دو کتابیں تحریر کر چکی ہیں۔ انہوں نے ڈیفنس سروسز میں ڈپٹی ڈائریکٹر آڈٹ کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ حال ہی میں ان کو بعض گمنام کالوں کے ذریعے ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ ان کا یہ انٹرویو بہت سے انکشافات کرتا ہے۔



ہم شہری: اپنے پس منظر بارے ہمیں کچھ بتائیے۔ یہ بھی بتائیے گا کہ آپ کس وجہ سے سول سروس میں گئیں اور پھر کیوں اس سروس کو چھوڑ دیا؟

عائشہ صدیقہ: میں لاہور میں پیدا ہوئی اور وہیں پر پلی بڑھی۔ اگرچہ میرے خاندان کا تعلق بہاولپور سے ہے جس سے میرا بھی بہت تعلق ہے لیکن میرا دل لاہوری (لہوری) ہے۔ میں نے 1988ءمیں سول سروس ذاتی وجوہ کی بنا پر جوائن کی تھی۔

1979ءمیں میرے والد فوت ہو گئے تھے اور میں بچپن میں ہی اپنی والدہ کے ساتھ وراثت کے معاملات سے نمٹنے میں تنہا رہ گئی تھی۔ جب میں نے کنیئرڈ کالج لاہور سے بی اے کیا تو میری والدہ جو کہ ناول نگار بھی ہیں، جمیلہ ہاشمی، انہوں نے مجھے سی ایس ایس کرنے کا مشورہ دیا۔ جب انہوں نے میری طرف سے اس تجویز کی مخالفت ہوتے دیکھی تو ایک دن انہوں نے مجھے بتایا کہ دیکھو بیٹا تمہارے ساتھ تو والد ہیں نہ چچا اور نہ ہی کوئی بھائی جو تمہاری مدد کرے، اپنی بقا کے لیے تمہیں خود اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔ قدموں پر کھڑے ہونے کا مطلب اس ملک میں روابط بنانا ہے۔ تو یا تو تمہیں لکھاری بن کر نام کمانا چاہیے(اس سے مراد فکشن رائٹر تھا) یا پھر سول سروس میں شامل ہو جاؤ۔

ایک طرح سے یہ اچھا فیصلہ تھا کیونکہ میں نے اکتوبر 1978ءمیں سی ایس ایس کا تحریری امتحان دے دیا تھا جبکہ میری والدہ جنوری 1988ءمیں جب اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو مجھے اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے چھوڑ کر گئیں۔ مجھے سمجھ آ گیا تھا کہ بطور سول سروس کارکن ہونے کے دنیا آپ کے لےے کس قدر مختلف ہوتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر بہاولپور جو کہ ایک پکا ڈی ایم جی (ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ) افسر تھا اور بھورے صاحب کے ساتھ ایک قسم کے مہربان روپ کے ساتھ پیش آتا ہے، اس نے میرے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کر لیا۔ اب میں طبقہ عوام سے نہ تھی بلکہ حکمران طبقے کا حصہ تھی۔ یقین کیجیے حکمران طبقے سے ہونے کے فیوڈل، بیورو کریٹک ماحول میں بہت معنی ہوتے ہیں۔

میں آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروسز میں تھی اور یہاں میں نے مختلف عہدوں پر کام کیا۔ اسی دوران میں وار سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کرنے کنگز کالج لندن گئی۔ میں 1996ءمیں لوٹی، پھر سول سروس میں شامل ہو گئی اور وہاں2000ءتک رہی۔ اپنے استعفیٰ سے پہلے میں نے ایک سال پاکستان بحریہ میں بھی کام کیا۔ نصف سال میں نے ڈائریکٹر آف نیول ریسرچ کے طور پر کام کیا۔ سول سروس میں نے جن اسباب کی بنا پر جوائن کی تھی اب وہ نہیں رہے تھے اور اب میں نے اپنا اکیڈمک مستقبل بنانے کی طرف توجہ کی۔ مجھے اپنے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ سول سروس میں بیورو کریٹک کیرئیر میرے لیے مناسب نہیں تھا۔

ہم شہری: آپ کے تحقیقی طریقہ کار میں اس تجربے نے کس قدر مدد کی جو آپ کو بطور ڈائریکٹر آف نیول ریسرچ ہوا؟ جیسا کہ بعض کا خیال ہے کہ اسی تجربے کی وجہ سے آپ نے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی معیشت کا ٹھوس تجزیہ کیا۔

عائشہ صدیقہ: نیوی میں میرا تجربہ بہت دلچسپ رہا۔ اصل میں سی این ایس جو کہ اس وقت ایڈمرل فصیح بخاری تھے ان کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کہ انہیں اپنے لیے کام کرنے والا ایک سویلین رکھنا چاہیے۔ وہ اس طرح سے نیوی میں ایک تبدیلی لانا چاہتے تھے لیکن کسی بھی قسم کی تبدیلی کی مخالف قوتوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ لیکن یہ بہت دلچسپ تھا۔ نیول افسروں کی اکثریت سسٹم کو اوپن کرنے اور اس میں ناگزیر تبدیلیاں لانے کی مخالف تھیں۔ تقریباً ڈیڑھ سال یہ کام کرنے کا تجربہ میرے حساب سے بہت دلچسپ تھا۔ اس نے مجھے اس حقیقت سے دوچار کیا کہ سویلین اور ملٹری پرسانل دو مختلف انواع ہیں اور سب سے بڑا گناہ اس ملک میں (ملٹری کی نظر میں) بحث و مباحثے کرنے والا سویلین ہونا ہے۔ جہاں تک نیول ہیڈ کوارٹر بارے میری تحقیق ہے اس نے صرف میرے کام کی تصدیق میں مدد کی اور میں نے اپنی معلومات کا بہت کم حصہ اس سے حاصل کیا۔

ہم شہری: کامران شفیع جب ”ڈیپ سٹیٹ“ کی بات کرتے ہیں اور اس بارے اپنا فہم بیان کرتے ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ اس سے مراد خفیہ سروسز، آرمی اور سول نوکر شاہی کا اتحاد ہے اور سول نوکر شاہی اوّل الذکر دونوں کے ماتحت ہے۔ اس اصطلاح بارے آپ کے اندازے کیا ہیں؟

عائشہ صدیقہ: ڈیپ سٹیٹ کے اور نام بھی ہیں۔ بعض اوقات لوگ اسے اسٹیبلشمنٹ بھی کہتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کے ممبران دو طرز کے ہیں۔ ایک پرائمری کردار ہیں اور دوسرے ثانوی کردار۔ وردی، بے وردی نوکر شاہی اس کے بنیادی ناگزیر کردار ہیں جبکہ ثانوی کردار کے حامل عدلیہ، بزنس اور صنعتی اشرافیہ کے لوگ ہیں۔ ان میں مذہبی اشرافیہ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ ثانوی کردار پرائمری کرداروں سے اپنے تعلقات کی بنا پر کم یا زیادہ اہم ہوتے رہتے ہیں۔

یہ لوگ اپنے مشترکہ مفاد کی وجہ سے باہم جڑے رہتے ہیں اور یہ مشترکہ مفاد ہے کہ ترقی پذیر ریاست کے اندر سماجی، سیاسی طور پر آخری طاقت ان کے پاس رہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے کبھی اپنی طاقت کو نہیں گنوایا، حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے انتخاب کے دور میں بھی۔ وہ بھی اقتدار سے اس وقت باہر کر دیے گئے جب ان کا تعلق اسٹیبلشمنٹ سے ٹوٹ گیا تھا۔ تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان اتنی ہی ڈیپ سٹیٹ ہے جتنا کوئی تصور کر سکتا ہے۔

ہم شہری: وکی لیکس کے نام پر ہمارے خود سے ”آزاد میڈیا“ کے منصب پر فائز میڈیا نے جو خود ساختہ جعلی لیکس چلائیں اس پر اسے بڑی خفت اٹھانا پڑی ہے۔ تو کس حد تک ہمارا میڈیا، صرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں بلکہ بلاگرز بھی، ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں؟

عائشہ صدیقہ: میڈیا ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جڑا رہا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ پہلے جو اخبارات تھے وہ ریاست کی مدد سے مضبوط ہوئے تھے۔ پھر بعض اخبارات نے بائیں بازو کی ٹون اپنائی کیونکہ ریاست خود کو ذرا مختلف رنگ میں پیش کر رہی تھی۔ لیکن حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے میڈیا کا تعلق بہت پرانا ہے۔ یہ تعلق اب اور زیادہ مضبوط ہو چکا ہے اور اس کی وجہ نیشنلسٹ ایجنڈا کا عام فہم ہونا ہے۔ میڈیا کے جو نئے ارکان ہیں وہ ابھی کم تربیت یافتہ ہیں اور بہت متکبر بھی۔ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ کیسے اسٹیبلشمنٹ انہیں استعمال کر لیتی ہے۔ میں اس بات پر مصر ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر سے ہمدردی رکھنا اور اس کا ایجنٹ ہو جانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ جھوٹی وکی لیکس ریاست پر میڈیا کے غیر صحت مندانہ انحصار کا محض ایک عکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انفارمیشن مرکزی سطح پر کنٹرولڈ ہے۔ بہت سے ایسے صحافی حتیٰ کہ سینئر صحافی بھی موجود ہیں جو معلومات تک رسائی کے لیے خوشی خوشی ایسی شراکت میں شریک ہو جاتے ہیں۔

یہاں پر غلطی اور قصور میڈیا مالکان کا بھی ہے جو ہیومن ریسورسز پر زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرتے چنانچہ صحافیوں کے پاس بھی سوائے اس کے اور کوئی راہ نہیں ہوتی کہ کوئی ایجنسی والا ان کو اہم کہانیاں دے۔ یہ قدرے پیچیدہ تعلق ہے۔ جب ایجنسیوں کے تنخواہ دار صحافی سرکشی کرتے ہیں تو انہیں سزا بھی دی جاتی ہے۔

ہم شہری: جب حامد میر / خواجہ ٹیپ سٹوری سامنے آئی تو بہت کم لوگوں نے اس پر توجہ دی۔ اس میں آپ بھی شامل تھیں۔ اس سٹوری کو جس طرح سے دفن کر دیا گیا اس سے اندازہ نہیں ہوتا کہ ہمارے میڈیا میں اخلاقیات کی سخت کمی ہے؟

عائشہ صدیقہ: حامد میر تو ایکسپوز ہو گیا لیکن اور بہت سے ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔ وہ معلومات کو ڈیپ سٹیٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ معتبر اخبارات جیسے ڈان ہے وہ بھی پلانٹ کردہ سٹوریز صفحہ اوّل پر شائع کرتے ہیں۔ حال ہی میں میرا نام تحریک طالبان پاکستان کی ہٹ لسٹ میں ظاہر کر دیا گیا۔ یہ سٹوری اخبارات میں اس وقت شائع ہوئی جب ایک ایجنسی کے ہرکاروں نے میڈیا کے دفاتر کے دورے کیے۔ یہ وہی ایجنسی ہے جو مجھے بھی پریشان کرنے کے لیے عجیب و غریب کہانیاں سناتی رہی ہے۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ میں ملک چھوڑ جاؤں۔

میرا کہنا یہ ہے کہ میڈیا ہو سکتا ہے آج زیادہ ذرائع رکھتا ہو لیکن اس میں آزاد روح کی کمی ہے۔ یہ1980ءکے میڈیا سے کم ہمت رکھتا ہے جو کہ اس وقت بہت سی عملی رکاوٹوں کا شکار تھا، اس کے راستے میں کئی جسمانی رکاٹیں حائل تھیں لیکن وہ سوچنے میں آزاد تھا۔

ہم شہری: ہماری ”شہری کلاس“ کے اکثر تجزیہ نگار لفظ فیوڈل پر حد سے زیادہ زور دیتے ہیں اور ایسا نظر آتا ہے کہ اس لفظ کو ”دیہی پاکستان“ کی تفہیم کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں بعض سیاستدانوں کو نیچا دکھانے کا جذبہ بھی کارفرما ہے۔ ایک طرف تو جاگیردار اشرافیہ کی ملکیتی جاگیریں کم ہو رہی ہیں تو دوسری طرف شہری سیاسی جماعتیں اپنے لینڈ مافیا گروپ مضبوط بنا رہی ہیں اور ہر مرتبہ بحث میں فوج کے رئیل اسٹیٹ بزنس اور جاگیروں کو خارج کر دیا جاتا ہے۔ تو کیا یہ کہنا ٹھیک ہو گا کہ اربن کلاس کا فیوڈل ازم کا جو فہم ہے اسے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے؟

عائشہ صدیقہ: فیوڈل ازم کی اصطلاح تو اب فیشن بن گئی ہے۔ میرے خیال میں یہ موجود ہے لیکن الگ شکل میں۔ حقیقت یہ ہے کہ جاگیرداری نظام اب دوسری شکل میں ڈھل چکا ہے۔ کارل مارکس نے تو اسے ”طریق پیداوار“ تصور کیا تھا۔ تو اس تناظر میں تو جاگیرداری کی شکل بدل چکی ہے۔ اکبر زیدی کی تجزیاتی تحقیق بتاتی ہے کہ بہت بڑی تعداد میں بڑی جاگیریں کم ہو گئی ہیں۔ میرے خیال میں صنعتی کاروباری اشرافیہ اور جاگیردار آپس میں گھل مل گئے ہیں۔ وہ زمین کو سیاسی سرمایہ کے طور پر مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے (ریاست اور دوسری جگہوں سے) استعمال کرتے ہیں۔ جو چیز مسئلہ بنی ہوئی ہے وہ رویہ ہے۔ مارکس نے تو کبھی اس اصطلاح کے سیاسی اور ثقافتی معنی بیان نہیں کیے تھے۔ ہماری جو ریاستی نوکر شاہی ہے وہ بھی فیوڈل ہے، حتیٰ کہ ہمارے جو اربن پروفیشنل ہیں ان کے بھی فیوڈل رویے ہیں۔

ہم شہری: ہماری اربن کلاس کیوں چھوٹے قومیتی گروہوں کو کسی حد تک نظر انداز کرتی ہے؟

عائشہ صدیقہ: اس طبقے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ شیطان اور گہرے نیلے سمندر کے درمیان کہیں پھنسا ہوا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ انہیں کبھی چھوٹے ذیلے قومی گروہوں کا خیال بھی آیا ہو گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی حرکت کا سبب بین الاقوامی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا احساس ہے۔ ان کے نزدیک اگر پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر بُرا امیج نہ ہو تو چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ ان میں ذیلی قومی گروہوں کے تناؤ بارے سوچنے کا یارا نہیں ہے۔ دراصل اس قسم کی سوچ کے پیچھے ہمارے معاشرے میں ترقی کی ناہمواری کارفرما ہے۔ وہ جو آگے جا چکے وہ پیچھے رہ جانے والوں کی طرف دیکھنا نہیں چاہتے اور وہ اسے اپنا قصور بھی نہیں مانتے۔ ایسی سوچ سارے جنوبی ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستانی مڈل اور اپر کلاس بھی ذیلی قومی تحریکوں کے بارے میں ایسے ہی بولتی ہیں۔

ہم شہری: کیا ہماری ’ڈیپ سٹیٹ‘ جہادی، فرقہ وارانہ ملیشیاؤں کو خارجہ اور مقامی پالیسی میں استعمال کرنے کی غلطی تسلیم کر چکی ہے اور تزویراتی گہرائی کے فلسفے کو دفن کر چکی ہے؟

عائشہ صدیقہ: نہیں۔ دراصل ہم کبھی بھی اقتصادی، سماجی یا ثقافتی مسابقت کی اصطلاحوں میں نہیں سوچتے بلکہ ہمیشہ ملٹری، سٹریٹیجک طاقت کی اصطلاحوں میں مقابلے کی سوچتے ہیں۔

ہم شہری: نوجوانوں کو انتہا پسند راستوں کا مسافر بننے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

عائشہ صدیقہ: ہمیں اپنی نئی نسل کو بچانے کے لیے نیا راستہ اپنانا ہو گا۔ یہ راستہ مغربی لبرل ازم پر انحصار کرنے والا نہ ہو بلکہ ہمیں ہمارے اپنے تہذیبی لبرل ازم کے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔ بدقسمتی سے ہماری تعلیم یافتہ اشرافیہ جب اپنے مذہب اور کلچر سے سامنا کرتی ہے تو یہ لبرل طرز فکر کے الٹ مظاہرہ کرتی ہے۔ ہمیں ایسے سیکولر ازم پر بات کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد ہماری اپنی تہذیبی تاریخ پر ہو۔

این ایل سی سکینڈل ۔۔۔۔پبلک اکاونٹس کمیٹی سے فوجی انکوائری تک

منافع بخش اور کامیاب ادارے کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے کرداروں کا احتساب!

عون علی

23 نومبر کو افواج پاکستان کے دفتر تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) سے جاری کیے گئے ایک مختصر بیان میں کہا گیا تھا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے نیشنل لاجسٹک سیل( این ایل سی) میں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی ایک کور کمانڈر اور میجر جنرل کے عہدے کے دو افسران پر مشتمل ہو گی اور تحقیقات مکمل ہونے پر عسکری قواعد و ضوابط کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

حاضر سروس فوجی افسران کی سربراہی میں چلنے والے نیم فوجی ادارے نیشنل لاجسٹک سیل ( این ایل سی)میں منظر عام پر آنے والی مبینہ مالی بے ضابطگیوں کی فوجی افسران کی طرف سے تحقیقات کا یہ فیصلہ بظاہر ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پبلک اکاونٹس کمیٹی گذشتہ قریب دو برس کی تحقیقات کے بعد اس حوالے سے واضح نتائج تک پہنچ چکی تھی اور کمیٹی کے بعض ممبران کے بقول وہ دسمبر میں کمیٹی کے اجلاس کے دوران اپنی انکوائری رپورٹ پارلیمان میں پیش کرنے والے تھے۔ واضح رہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس وقت این ایل سی کے حوالے سے تین مختلف کیسوں پر انکوائری کررہی تھی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں این ایل سی کی یہ انکوائری جنوری2009ءسے جاری ہے تاہم اس دوران فوج میں داخلی سطح پر اس حوالے سے تحقیقات کا کبھی امکان ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق2003ءمیں اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کی واضح ہدایات کے برعکس این ایل سی کے اعلیٰ عہدیداروں نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے این ایل سی کو اربوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں این ایل سی کی اس” سٹہ بازی“ کے لیے این ایل سی کے پنشن فنڈ کے لیے مختص رقوم استعمال کی گئےں، اس کے علاوہ چار مختلف بینکوں سے بھاری شرح سود پر حاصل کی گئی دو ارب سے زائد رقم بھی این ایل سی کے ذمہ داران نے اس ”سرمایہ کاری“ کی نذر کر دی۔ این ایل سی نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے بینکوں سے جو قرض حاصل کیے اس کی تفصیل اس طرح ہے: یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ 80 کروڑ روپے،بینک الفلاح 65 کروڑ، الائیڈ بینک لمیٹڈ 50 کروڑ،نیشنل بینک آف پاکستان نو کروڑ۔ ان قرضوں کی قسطیں بمعہ سود اب این ایل سی ادا کر رہا ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اپنی تحقیقات میں این ایل سی کے جن عہدیداروں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے اُن میں لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل مظفر، لیفٹیننٹ جنرل خالد منیر خان، سابق ڈائریکٹر جنرل این ایل سی میجر جنرل خالد ظہیر، چیف فنانس آفیسر سعید الرحمن اور ڈائریکٹر فنانس اینڈ اکاؤنٹس نجیب اللہ کے نام شامل ہیں۔ مذکورہ تینوں فوجی افسرا ن اب ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ سعید الرحمن وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے (کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی) کے چیف فنانس منیجر کے عہدے پر اپنی قابل خدمات پیش کررہے ہیں۔

گذشتہ قریب دو برس کے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے این ایل سی کے معاملے میں جو تحقیقات کی ہیں ان میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ستمبر2003ءمیں این ایل سی کے بورڈ کی میٹنگ کے دوران وزیر خزانہ شوکت عزیز نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے اجتناب کی ہدایت کی تھی۔ واضح رہے کہ نیشنل لاجسٹک بیورو کے چیئرمین کی حیثیت میں بھی این ایل سی وزیر اعظم کی اس ہدایت پر عمل کا پابند ہے۔ اِس کے بعد جنوری2005ءمیں بھی شوکت عزیز کی طرف سے ہدایت کی گئی کہ سیکرٹری فنانس کے مشورے سے این ایل سی کو سٹاک مارکیٹ سے اپنا سرمایہ نکالنے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے جبکہ دسمبر2007ءمیں این ایل سی کے بورڈ کی میٹنگ کے دوران وزیراعظم کی ہدایت پر قائم کردہ ایگزیکٹو کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں جن میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا کہ این ایل سی کو سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے باز رہنا چاہےے اور فاضل سرمایے کے استعمال کے لیے فنانس ڈویژن سے ہدایت لینی چاہیے۔ تاہم اس کے سراسر الٹ ہوا۔ این ایل سی نے سٹاک مارکیٹ سے نہ تو اپنا سرمایہ نکالنے کی کوئی حکمت عملی طے کی اور نہ ہی اپنے حصص کو بہتر قیمت ملنے کے باوجود فروخت کیا۔ چنانچہ حصص کی قیمت گرتی چلی گئی اور این ایل سی کا سرمایہ سٹاک مارکیٹ میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس طرح صرف گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اس ادارے نے کم ازکم دو ارب روپے کے قریب رقم سٹاک مارکیٹ میں سٹہ بازی کی نذر کی ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے این ایل سی کے کیس کی تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ ادارہ صرف اپنا فاضل سرمایہ کسی کاروبار میں لگانے کا مجاز ہے تاہم اس ادارے نے دو ارب سے زائد رقم بینکوں سے قرض لے کر سٹاک مارکیٹ میں جھونک دی۔ علاوہ ازیں این ایل سی صرف اپنے فاضل سرمائے کا 20 فیصد سکیورٹیز میں لگا سکتا ہے مگر 2003ءسے 2008ءکے دوران اِس ادارے نے پنشن فنڈ اور بینکو ں کے قرضے کی چار ارب روپے سے زائد رقم سٹاک میں لگا دی، اور یہ سب کچھ ایسے انداز میں کیا گیا ہے جس پر کئی خدشات ابھرتے ہیں۔ مثلاً این ایل سی نے سرمایہ کاری کے حوالے سے کبھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ایسی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے پاس ادارے کی طرف سے سرمایہ کاری کا اختیار ہو۔پبلک اکاونٹس کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق این ایل سی کی طرف سے سرمایہ کاری کے حجم کا سالانہ جائزہ لیا جانا چاہیے تھا ، تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔علاوہ ازیں این حصص کو بہتر نرخوں پر فروخت کرنے کے مواقع سے بھی فائدہ نہیں اُٹھایا گیا۔ اس صورتحال سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ اس ادارے کو سٹاک مارکیٹ میں صرف سرمایہ لگانے میں دلچسپی تھی، منافع بخش مواقع سے فائدہ اٹھانے میں قطعاً سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ اکتوبر 2009ءمیں کمیٹی کی انکوائری کے دوران انکشاف ہوا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر 2008ءمیں اپنی ریٹائرمنٹ کے دن تک این ایل سی کی طرف سے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے رہے۔ملکی سٹاک مارکیٹ کی دگرگوں صورتحال کے پیش نظر دیگر سرکاری اداروں نے اگرچہ 2006ءسے سٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا تھا، تاہم این ایل سی نے یہ روش ترک نہیں کی۔ چنانچہ اس شک کی بنا پر کہ اس سراسر گھاٹے کے کام میں این ایل سی کی دلچسپی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس کی بروکر کمپنیوں اور ان کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کی معلومات بھی طلب کیں۔کمیٹی کی انکوائری میں یہ بھی واضح ہوا کہ این ایل سی نے بروکرزکے تعین کے حوالے سے ایک اصول تو وضع کیا تھا تاہم اس اصول پر کبھی عمل نہیں کیا ۔

این ایل سی کی طرف سے سرمایہ کاری کے غیر شفاف منصوبوں کی فہرست میں سٹاک مارکیٹ کی سرمایہ کاری کی منفی مہم جوئی کے علاوہ دس کروڑ روپے کی لاگت سے بنائی گئی انرجی ڈیویلپمنٹ سروس کمپنی (ای ڈی ایس سی)، ہوٹلوں اور شاپنگ پلازوں کی تعمیرات کے منصوبے اور بعض ایسے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے بھی شامل ہیں جو اس ادارے نے خود مکمل کرنے کے لیے حاصل کیے مگر بعد میں یہ آگے ٹھیکیدار اداروں کے سپرد کر دیے۔ حیران کن طور پر یہ سبھی غیر شفاف منصوبے 2006ءاور 2008ءکے دوران تشکیل دیے گئے ہیں۔ انرجی ڈیویلپمنٹ سروس کمپنی اگست 2007ءکے دوران قائم کی گئی اور اسے چلانے کے لیے ایک ڈائریکٹر جنرل اور تین ڈائریکٹر بھی بھرتی کیے گئے۔ اس کمپنی نے تھرکوئل فیلڈ میں تیل اور گیس کے منصوبوں پر کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا تھا۔ اس کاروبار میں ایل پی جی اور بجلی کی پیداوار کا کام بھی شامل تھا۔ تاہم ای ڈی ایس سی صرف نو ماہ تک قائم رہی اور جون2008ءمیں اسے اچانک بند کر دیا گیا ۔ اِس وقت تک اس کا خسارہ20 ملین روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس طرح این ایل سی نے صوابی کیڈٹ کالج اور پشاور یونیورسٹی کی کچھ عمارتوں کی تعمیر کا ٹھیکہ حاصل کیا مگر اسے خود مکمل کرنے کے بجائے آگے کسی دوسرے ٹھیکے دار کو منتقل کر دیا، ان ٹھیکے داروں نے ان میں سے کوئی منصوبہ بھی مکمل نہیں کیا ۔اس طرح 2008ءمیں این ایل سی نے اپنے جونیئر افسران کے استعمال کے لیے سات ٹو یو ٹا لینڈ کروز گاڑیاں در آمد کیں، ان گاڑیوں کی درآمد کے لیے این ایل سی نے کسٹمز سے استثنا حاصل کر نے کے لیے یہ ظاہر کیا کہ گاڑیاں دفاعی سروسز کے لیے درآمد کی جا رہی ہیں اور ان کی قیمت بھی دفاعی بجٹ ہی سے ادا کی گئی ہے۔ این ایل سی کا ایک اور ناکام اور نا مکمل منصوبہ اسلام آباد میں رہائشی عمارات ، شاپنگ مال اور فائیوسٹار ہوٹل کی تعمیر کا تھا۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پلاننگ ڈویژن کی طرف سے این ایل سی کی سرمایہ کاری کا جو ریکارڈ پیش کیا گیا اس سے ظاہر ہوا ہے کہ 2006ءاور 2007ءمیں این ایل سی نے اسلام آباد کے مہنگے ترین علاقے بلیو ایریا میں فائیو سٹار ہوٹل، شاپنگ مال اور رہائشی عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے دو پلاٹ خرید ے تھے۔ اِس منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ کے لیے این ایل سی نے ”ہاروکنسٹرکشن سروسز“ نامی اسلام آباد کی کسی غیر معروف تعمیراتی کمپنی کو32ملین روپے کا ٹھیکہ بھی دیا۔ بعد میں این ایل سی کے ذمہ داران نے یہ منصوبہ معطل کردیا تاہم مارچ 2008ءمیں ”ہارو کنسٹرکشن سروسز“ کو فزیبلٹی کے لیے طے شدہ رقم ادا کر دی گئی۔

پبلک اکاونٹس کمیٹی نے این ایل سی کے ادارے میں اصول و ضوابط کی خلاف ورزی اور واضح ہدایات سے انحراف کے ثبوتوں کی بنا پر گذشتہ قریب دو برس کے دوران خاصی دلجمعی سے انکوائری کی ہے۔ اور اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ مسلح افواج کے سربراہ کو اس حوالے سے خود نوٹس لینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی نے اس دو برس کے عرصے کے دوران خود کو پلاننگ ڈویژن کی طرف سے فراہم کردہ آڈٹ رپورٹوں اور این ایل سی کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات تک ہی محدود ر رکھا ہے۔سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اشرف حیات نے پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے سامنے یہ تسلیم کیا تھا کہ سابقہ انتظامیہ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے این ایل سی کو خاصا خسارہ برداشت کرنا پڑرہا ہے نیز یہ کہ چیف آف آرمی سٹاف نے ہدایت کی ہے کہ این ایل سی کے تحت وہ تمام کاروبار بند کیے جائیں جو نیشنل لاجسٹک سیل کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔تاہم کمیٹی نے اس دوران تحقیقات میں قصور وار ظاہر ہونے والے این ایل سی کے اعلیٰ عہدیداروں کو جرح کے لیے کبھی طلب نہیں کیا۔پبلک اکاونٹس کمیٹی کے ممبر ندیم افضل گوندل کے بقول کمیٹی نے اس معاملے کو ہائی لائٹ کیا اور این ایل سی کے موجودہ سربراہ سے کہا کہ وہ اس خرد برد کے مرتکب افراد کا تعین کریں۔اصولی طور پر پبلک اکاونٹس کمیٹی کو اس خرد برد کے مرتکب افراد سے خود جرح کرنی چاہیے تھی ۔ ایسا نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ ابھی تک یہ انکوائری محض یک طرفہ کارروائی کی حد تک ہے۔ اکتوبر 2009ءکے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایک موقع پر اس امر کا جائزہ بھی لیا تھا کہ بے ضابطگی کے مرتکب افراد یعنی تین جنرل اور دو سول افسروں کو کمیٹی کے سامنے طلب کیا جائے اور ان سے نقصان کا ازالہ کروایا جائے ۔ تاہم نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس کی نوبت کبھی نہیں آئی۔

اب جبکہ این ایل سی سکینڈل کی تحقیقات مکمل کرنے اور ذمہ داریوں کا تعین کرنے کا فرض فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سطح پر اس کارروائی کی کیا صورت بنتی ہے، اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ فوج اس کارروائی کو کس درجہ سنجیدگی سے اُٹھاتی ہے اور مسلح افواج کے ادارے کے لیے بدنامی کا باعث بننے اور منافع بخش اور کامیاب ادارے کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے ان کرداروں کا احتساب ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔

خفیہ ادارے اور عدلیہ

اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدیوں کا سراغ

روشن لعل

رہائی کے نام پر لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کر دیے اڈیالہ جیل کے 11 قیدیوں کی گمشدگی کا معمہ9دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں بالآخر حل ہوگیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس خلیل الرحمن رمدے اور جسٹس غلام ربانی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے حساس اداروں نے اپنے وکیل راجہ ارشاد کی وساطت سے یہ اعتراف کرلیا کہ اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونے والے گیارہ قیدی ان کی تحویل میں ہیں۔ اس سے پہلے24 نومبر کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی بی کے سربراہان اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق کے ذریعے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے سامنے یہ تحریری بیان دے چکے تھے کہ اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونے والے قیدی اُن کے پاس نہیں ہیں۔ اس تحریر میں حساس اداروں کی طرف سے یہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ عدالت ان اداروں کی براہِ راست جواب طلبی نہیں کرسکتی لہٰذا اس طرح کی کارروائی وفاق پاکستان یا وزارتِ کے سیکرٹری کے توسط سے ہونی چاہیے۔ حساس اداروں کے اس طرح کے اظہار خیال کی وضاحت طلب کرتے ہوئے 25 نومبر کو سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے اٹارنی جنرل کو بتایا کہ آئین اور قانون کے مطابق حساس اداروں کے سربراہان کو کسی قسم کا استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ حساس اداروں کے سربراہوں کو آئین کے آرٹیکل(3)185 اور سپریم کورٹ کے رولز 1980ءکے تحت نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ تین رکنی بنچ کے جج صاحبان نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے اور حساس اداروں کے سربراہان کی توجیہہ کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا تھا کہ کیا وہ آئین اور قانون کا کوئی ایسا حوالہ بیان کرسکتے ہیں جس کی رُو سے ایجنسیوں کو نوٹس نہ بھیجے جاسکتے ہوں۔ اٹارنی جنرل کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا انہوں نے خفیہ اداروں کے سربراہان کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا جواب واپس لے لیا۔ اس کے بعد عدالت نے اس مقدمے کی سماعت 13دسمبر تک ملتوی کر دی۔

13 دسمبر سے قبل ہی اس مقدمے کے حوالے سے اہم موڑ اس وقت آیا جب خفیہ اداروں کے کچھ اعلیٰ اہلکاروں نے 7 دسمبر کو اٹارنی جنرل سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ وہ مقدمہ کی سماعت مقررہ تاریخ سے پہلے چاہتے ہیں کیونکہ لاپتہ قیدیوں کے متعلق کچھ اہم باتیں سامنے آئی ہیں۔ حساس اداروں کی درخواست پر جب سپریم کورٹ نے مقررہ تاریخ سے قبل8 دسمبر کو مقدمہ کی سماعت کی تو ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد نے قیدیوں کی گمشدگی کا راز افشا کرتے ہوئے کہا کہ ان قیدیوں نے اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد خود کو اپنی مرضی سے ایجنسیوں کے اہلکاروں کے بھیس میں آنے والے اپنے دہشت گرد ساتھیوں کے حوالے کیا تھا جو انہیں قبائلی علاقوں میں اس جگہ لے گئے جہاں اس وقت فوجی آپریشن جاری ہے۔ ایجنسیوں کے وکیل نے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ نے جب گمشدہ افراد کے متعلق دریافت کیا تو قبائلی علاقوں میں مصروف فوج نے کئی لوگوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جن میں یہ 11 افراد بھی شامل ہیں۔ راجہ ارشاد نے یہ بھی بتایا کہ اِن گیارہ قیدیوں سے کی گئی تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ ایک فور سٹار جرنیل کے قتل سمیت حمزہ کیمپ کامرہ کمپلیکس اور جی ایچ کیو میں ہونے والے خودکش حملوں جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ راجہ ارشاد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ وہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی طرف سے عدالت کو آگاہ کرتے ہیں کہ اڈیالہ جیل سے لاپتہ قرار دیے گئے 11 افراد زندہ، محفوظ اور ہماری تحویل میں ہیں اور اِن کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے لہٰذاب انہیں لاپتہ نہ سمجھا جائے۔ ایجنسیوں کے وکیل کے سپریم کورٹ میں اس بیان کے بعد تین رکنی بنچ میں شامل فاضل ججوں کا لہجہ اور تاثرات پہلے کی نسبت تبدیل ہو گئے۔ اس بیان کے بعد چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے اقدام کو سراہا اور کہا کہ وہ آرمی اور اس سے متعلقہ اداروں کو سراہتے ہیں جو ملک وقوم کا دفاع کررہے ہیں۔

اس موقع پر لاپتہ قیدیوں کے وکیل الیاس صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدالت کی طرف سے اس سے قبل سخت کارروائی کرنے کے ریمارکس کے بعدہی گمشدہ افراد کے متعلق معلومات کا حصول ممکن ہوا۔ اِن کا کہنا تھا کہ یہ افراد گزشتہ سات ماہ سے لاپتہ تھے، اب اچانک کیسے باز یاب ہوگئے ہیں۔ اُن کا اصرار تھا کہ اس بات کا جواب سرکاری وکیل سے لیا جانا چاہیے۔ الیاس صدیقی کے اس اصرار کے جواب میں جسٹس رمدے کا کہنا تھا کہ اس بات کو چھوڑیں، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کے موکل کا پتہ چل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فوج کی عزت کرتے ہیں، یہ ہمارے بھائی اور بچے ہیں اور ہمارا دفاع کرتے ہیں۔ اس مقدمے کی اب تک کی پیش رفت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ 11 قیدیوں کی اُن کے لواحقین سے ملاقات کرائی جائے۔ اس کے بعد عدالت نے اس مقدمے کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی۔

اس مقدمے کی اب تک کی کارروائی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سپریم کورٹ اڈیالا جیل سے لاپتہ ہونے والے قیدیوں کی گمشدگی اور بازیابی کے حوالے سے ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد کی بیان کردہ باتوں سے مطمئن ہے۔ دوسری طرف لاپتہ قیدیوں کے وکیل الیاس صدیقی کے تاثرات اس کے برعکس ہیں، جن کا یہ خیال ہے کہ عدالت کے سخت لب ولہجہ کی وجہ سے لاپتہ افراد کا سراغ ملنا ممکن ہوا۔ الیاس صدیقی کے موقف سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں لاپتہ قیدی اصل میں کہیں اور نہیں بلکہ پہلے سے ہی خفیہ ایجنسیوں کی تحویل تھے۔

وہ عام لوگ جو اس مقدمے کی کارروائی میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ان کے خیالات ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد کی نسبت لاپتہ قیدیوں کے وکیل الیاس صدیقی کے زیادہ قریب ہیں۔ اس سلسلے میں جن لوگوں کی سوچ الیاس صدیقی سے ہم آہنگ ہے اُن کے خیال میں خفیہ ایجنسیوں نے اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدیوں سے متعلق جو موقف اختیار کیا ہے وہ اصل میں عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے۔ ان لوگوں کی اس سوچ کی وجہ یہ ہے کہ ایجنسیوں نے لاپتہ قیدیوں کے حوالے سے لیے گئے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے فوراً بعد جو ردِ عمل ظاہر کیا اور پھر آخر میں قیدیوں کے اپنی تحویل میں رکھنے سے متعلق جوبیان دیا اُس میں خاصی اونچ نیچ دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے ایجنسیوں کے رویے میں موجود جھول کی وجہ سے ہی یہ خیال عام ہے کہ اگرچہ عدالت نے یہ واضح کردیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کو لوگوں کو اپنی تحویل میں رکھنے یا عدالت کو جواب دینے سے متعلق کوئی ماورائے قانون اختیار حاصل نہیں ہے اس کے باوجود اُن کی بھرپور کوشش ہے کہ اُن کی ماورائے قانون اختیار رکھنے کی حیثیت کو قانون کے غلاف میں رکھ کر یا اس کے بغیر بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہونی چاہےے کہ خفیہ ایجنسیاں جو خود بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شمار ہوتی ہیں وہ کیوں ماورائے قانون اختیار رکھنے کو حق بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی اس کوشش کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سے ہی غیر تحریری طور پر ملک کی دائیں بازو کی سیاسی قیادت، عدلیہ اور انتظامیہ نے صرف مخصوص لوگوں کے خلاف استعمال کیے جانے کی وجہ سے اِن کے ماورائے قانون اختیارات کو حق کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔ خفیہ ایجنسیوں جیسے ریاستی اداروں نے پاکستانی تاریخ کی پہلی پانچ دہائیوں میں اپنے اس غیر تحریری اور غیر تسلیم شدہ حق کو بے دردی سے جمہوریت پسندوں، ترقی پسندوں اور لبرل سوچ رکھنے والوں کے خلاف جس طرح استعمال کیا اور اِن کے مقلد دائیں بازو کے عناصر نے اس کو جس طرح سے نظر انداز کیا اُس کی وجہ سے ہی وہ اب اس حق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِن خفیہ اداروں کے لوگ عدالتوں میں غلط بیانی سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔

جہاں تک خفیہ ایجنسیوں کے ماورائے قانون کردار کو عدالتوں کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے 2006ءکے آخر تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔2007ءکے آغاز یا2006ءکے اختتام پر غالباً پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اعلیٰ عدلیہ نے لوگوں کو ماورائے قانون اپنی تحویل میں رکھنے کی خفیہ ایجنسیوں کی مشق پر واضح سوالیہ نشان لگایا۔ اس کے ساتھ ہی2000ءکی دہائی میں9/11کے واقعہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد دائیں بازو کے سیاستدانوں، صحافیوں اور دانشوروں نے خفیہ ایجنسیوں کے اس طرح کے کردار پر اعتراض ظاہر کرنا شروع کیے۔ اس سے پہلے کے ادوار کو اگر دیکھاجائے تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ جو لوگ اب انسانی حقوق اور قانون کی دہائی دے کر ایجنسیوں کے ماورائے قانون کردار کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں وہ ضیا الحق جیسے ادوار آمریت میں سیاسی جدوجہد کرنے والے جمہوریت پسند لوگوں کے ساتھ ایجنسیوں کے اس طرح کے روا رکھے جانے والے کردار پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ بغلیں بجاتے رہے۔ موجودہ دور میں بھی اگر لاپتہ ہونے والے یا غیر قانونی طور پر تحویل میں رکھے جانے والے لوگوں کو اِن کی مخصوص مذہبی وابستگی اور کردار کی بنا پر تقسیم کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر گوکہ گمشدہ لوگوں کی بازیابی کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اب بھی اُن کی حمایت کا اصل مرکز مخصوص مذہبی فکر رکھنے اور دہشت گردوں کے نظریات سے قربت رکھنے والے لوگ ہیں نہ کہ سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے۔

پاکستان میں لاپتہ ہونے والے افراد میں مخصوص مذہبی سوچ اور دہشت گردوں سے قربت رکھنے والے لوگوں کے علاوہ بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کرنے والے کارکن بھی شامل ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سال2006ءکے آخر سے اعلیٰ عدلیہ نے اِن لاپتہ لوگوں کی بازیابی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور میڈیا بھی اس سلسلے میں خاصا سرگرم رہا ہے، تاہم اس حوالے سے یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اس طرح کی سرگرمی سیاسی جدوجہد کرنے والے بلوچوں کی نسبت مخصوص مذہبی سوچ رکھنے والے لوگوں کے لیے زیادہ کارگر اور سودمند ثابت ہوئی ہے۔ گو کہ 2006ءکے بعد لاپتہ لوگوں کی بازیابی میں عدلیہ کا کردار قابل تحسین رہا ہے لیکن بلوچستان کے لوگ عدلیہ کے اس کردار سے زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ بلوچوں کے اس احساس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جون2010ءمیں جب چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے کوئٹہ کا دورہ کیا تھا تو اس موقع پر لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی عدم بازیابی کو جواز بنا کر بلوچ بار ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے وکیلوں نے چیف جسٹس کی وہاں آمد کے دِن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا تھا۔ اس موقع پر بلوچ بار ایسوسی ایشن کے صدر صادق رئیسانی نے کہا تھا کہ یہ یوم سیاہ لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لے جدوجہد کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے منایا جا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں عدلیہ سمیت ملک میں انسانی حقوق کی بحالی کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیموں پر انہوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔

اس حوالے سے گو کہ بلوچوں کا مذکورہ احساس خاص اہمیت کا حامل ہے اس کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی اور اس سے متعلق خفیہ ایجنسیوں کے کردار کو زیر بحث لانے میں اعلیٰ عدلیہ نے جوکردار ادا کیا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں مزید بہتری کے لیے عدلیہ اور سول سوسائٹی سمیت پارلیمنٹ کے مزید فعال کردار کی ابھی مزید گنجائش اور ضرورت موجود ہے۔

Social Control for Peace

ایک عظیم امن پسند کی جدوجہد

امن کے نوبل انعام 20010 کے حقدار لیو شاﺅ بو

ٖ امن و آشتی کو انسانیت کی بلند ترین معراج قرار دیا جاتا ہے جس کے حصول کے لیے کئی افراد نے لازوال قربانیاں دیں اور تمام عمر اس کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی ۔ ان افراد کی خدما ت کے اعتراف کے لیے ہر برس نو بل انعام کی تقریب منعقد کی جاتی ہے اور ان کو دنیا کے اعلٰی ترین امن ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے ۔2010 ءکا امن پیس پرائزچین سے تعلق رکھنے والے منحرف رہنما لیو شاوبو کو دیا گیا جس کے ساتھ ہی نوبل انعام کی یہ تقریب تاریخ کی متنازعہ ترین تقریب بن کر ابھری، جس کا چین اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے بائیکاٹ کیا۔ان کو یہ ایوارڈ ”چین میں انسانی حقوق کی بحالی کے لیے طویل اور پر امن جدوجہد“ کرنے کے صلے میں دیا گیا، جبکہ حیرت انگیز نظارہ یہ تھا کہ ان کو دیا گیا ایوارڈ اور سرٹیفیکٹ سٹیج پر رکھی ہوئی اایک خالی کرسی پر سجا ئے گئے تھے کیونکہ لیو شاوبو اس وقت پابند سلاسل ہیں۔ اس امن ایوارڈ کے لیے دنیا بھر کے دو سو افراد کو نامزد کیا گیا تھا ، جن میں سے لیو شاوبو کو امن ایوارڈ دیا گیا۔۔۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو اس ایوارڈ کا حقدار قرار دےے جانے پر چین اور کئی ممالک کو ایسے شدید اعتراضات کیوں ہیں کہ انہوںنے اس تقریب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔اس امر کا جائزہ لیو شاوبو کی زندگی اور جد وجہد کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔

ا گر چین میں دلائی لامہ کے بعد امن انعام پانے والے دوسرے شخص لیو شاوبو کا مختصر لفظوں میں تعارف پیش کیا جا ئے تو وہ ایک سیاسی رہنما ، یونیورسٹی پروفیسر ، مصنف ، انسانی حقوق کے علمبرادار اور چین کی حکمران کمیونسٹ جماعت کے بہت بڑے نقاد ہیں۔وہ کئی برسوں سے قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ مگر گذشتہ برس حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے الزام میں انہیں گیارہ برس کی قید کی سزا سنائی گئی جس کا مطلب ہے کہ وہ اب 2020ءمیں چینی صوبے لیاونینگ کی جز ہو جیل سے رہائی پائیں گے ۔ اسی قید کے باعث وہ ناروے میں منعقد ہونے والی نوبل پرائز تقریب میں شرکت نہ کرسکے جہاں انہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ۔ دنیا لیو کو چین کے سب سے بڑے باغی کے طور پر جانتی ہے اور انہیںاس وقت مزید شہرت ملی جب ان کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا، تاہم حیران کن طور پر چین کے چند ہی لوگوں نے ان کا نام سنا ہوگا، اس کی وجہ حکومتی سنسر اور نگرانی کی شدید ترین پابندیاں ہیں جو ان پر گذشتہ اکیس برس سے لگی ہوئیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کوئی تحریر چین میں شائع کرنا یا پھر ان کا نام پریس کے کسی بھی حصے میں آنا شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ لیو شاوبو کو یہ امن انعام ملنے کی دیر تھی کہ چین نے ان کی بیوی اور کئی درجن حامیوں کو فوری طور پر نظر بند کردیا تاکہ وہ کسی صورت بھی جیل میں قید لیو کا امن انعام لینے ناروے روانہ نہ ہوسکیں۔علاوہ ازیں چین نے اپنے تمام دوست ممالک کو خطوط لکھے کہ وہ چین کے ایک مجرم کو ایوارڈ نوازنے کی تقریب میں جانے سے گریز کریں ،جس پر اٹھارہ ممالک ،جن میں روس ، سعودی عرب ، پاکستان، عراق اور ایران شامل ہیں، نے اس تقریب کا بائیکاٹ کردیا۔

اگر لیو شاو بو کی زندگی کے حالات کا مختصر احاطہ کیا جائے تو وہ 1955 ءمیں ایک دانشور خاندان میں پیدا ہوئے جس کا اوڑھنا بچھو نا درس و تدریس تھا۔ ان کے والدہ بھی انسانی حقوق کے علمبرداروں میں سے ایک تھے اور بچپن سے ہی وہ لیو کو وہ اپنے ساتھ ہر جلسے اور سیاسی سرگرمی کا حصہ بناتے تھے ، انہوںنے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پیشہ و رانہ زندگی کا آغاز اس نعرے سے کیا کہ چین میں مکمل جمہوریت ہونا چاہےے اورملک میں ایک پارٹی ( کمیونسٹ پارٹی) کی حکومت کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ انہوںنے جمہوری انتخابات اور شخصی آزادی کے لیے باقاعدہ مہم کا آغاز کیااور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس کو اپنی غلطیوں کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہونا چاہےے جبکہ احتساب کے عمل سے بھی گزرنا چاہےے ۔ اسی کی دہائی کے اوآخر میں دنیا بھر میں کمیونسٹ حکومتیں ایک کے بعد ایک اقتدار سے علیحدہ ہونے لگیں جس کے نتیجے میں چین میں بھی کمیونسٹ حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا ۔1989ءمیں اپریل کے مہینے قریباً ایک لاکھ افراد جن میں طلبا اور دانشور تھے، نے بیجنگ کے تیاننم سکوئر میں ملک میںایک اپوزیشن لیڈر کے قتل پر احتجاج شروع کیا جس میں دھیرے دھیرے جمہوریت بحالی اور اقتصادی ترقی کا مطالبہ بھی شامل ہوگیا ۔ یہ احتجاج سات ہفتے تک چلے جو رفتہ رفتہ چین کے دوسرے شہروں میں بھی پھیلنے لگے ۔ جس پر چار جون کو فوج کو طلب کرلیا گیا ،مظاہرین اور فوج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ۔ ایسے میں لیو شاوبو ، جو ان مظاہروں کے روح روا ں تھے ،نے مظاہرین کو اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ فوج سے ٹکراو سے گریز کریں تاکہ خون خرابہ نہ ہو۔ان کے کہنے پر ایک بڑی تعداد جلسہ گاہ سے چلی گئی مگر پھر بھی یہ فوج اور مظاہرین کا ٹکراو ہو ا جس کے نتیجے میں ساٹھ کے قریب فوجی اور چار سو کے قریب مظاہرین مارے گئے۔ اس کے فوراً بعد لیو شاوبو کو بدامنی پھیلانے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

اس قید سے رہائی کے بعدبھی لیو نے اپنی جدو جہد سے قطع تعلق نہیں کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھی ، وہ نوے کی دہائی میں گاہے بگاہے جیل یاترا کرتے رہے۔اسی دوران انہوںنے شادی بھی کر ڈالی اور جب 1999ءمیں وہ ایک سزا مکمل کرکے گھر پہنچے تو ان کے گھر کے اندر ایک باقاعدہ سنتری پوسٹ بنادی گئی تھی تاکہ ان کے فون اور اانٹرنیٹ کو ریکارڈ کیا جاسکے۔ یہاں سے لیو شاوبو کے مغرب اور امریکہ کے ساتھ رابطوں کی خبریں بھی عام ہونے لگی ، انہوںنے ایک دفعہ چین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر رپورٹ تیار کرنے کی کوشش بھی کی مگر حکام نے کاروائی کرکے ان کے گھر سے کمپیوٹر اور کاغذات وغیرہ اپنے قبضے میں لے لیے۔ اس پر ’Reporters Withour Borders“ نامی بین الاقوامی تنظیم نے انسانی حقوق کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو ایوارڈ سے نوازا ۔

2008ءمیں لیو شاوبو نے چین کے 350دانشوروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان کے ساتھ مل کر ملک میں جمہوریت نفاذ کرنے کامطالبہ کیا اور اس ضمن میں ایک چارٹر پر دستخط کےے جو ’Charter08“ کے نام سے مقبول ہوا۔یہ Charter77کی ہی ایک طرز تھی جو کسی زمانے میں سویت یونین کے خلاف جاری کیا گیا تھا۔اس چارٹر کو تیار کرنے کا مرکزی خیال لیو شاوبو کا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں آزادی رائے ، شخصی آزادی اور جمہوریت ہونی چاہےے۔ لیکن یہ ایک ایسا جرم تھا جو حکمران کمیونسٹ پارٹی کو ہر گز منظور نہ تھا ، اسی باعث لیو کواس چارٹر کو پیش کرنے سے دو روز قبل ہی گرفتار کرلیا گیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوںنے ریاست کے خلاف سازش کرتے ہوئے عوام کر بھڑکانے کی کوشش کی ہے اور ان کے اقدام سوشلسٹ نظام کے خلاف ہیں ۔ ان کے مقدمے کی سماعت کے وقت امریکی اور مغربی نمائندوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی عدالت میں رہنے کی کوشش کی مگر ان کو حکومت کی جانب سے اجازت نہ مل سکی۔لیو کو گیارہ برس کی جیل قید سنادی گئی ،جس پر دنیا بھر کی حکومتوں کی جانب سے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا لیکن چین نے اس کو ملکی آزادی میں

مداخلت قرار دے کر مسترد کردیا۔

لیو شاوبو کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی خبریں رواں برس میں جنوری کے مہینے میں گردش کرنے لگیں جب ناروے کے ایک چینل یہ خبر دی کہ اس دفعہ امن انعام کے لیے دو سو سے زائد نامزدگیاں ہیں اور زیادہ امکانات یہ ہیں کہ یہ ایوارڈ چینی منحرف رہنما لیوشاوبو کو دیا جائے گا۔اس پر چین کے دفتر خارجہ نے نوبل پرائز کمیٹی کو یہ مراسلہ بھیجا کہ ایسا کوئی قدم اٹھانا عقلمندی نہیں کیونکہ لیو ، چین کی ریاست کا مجرم ہے اور اس کو یہ ایوارڈ نوازنے کا مطلب ہمارے خلاف قدم اٹھانا ہے۔لیکن ناروے نوبل کمیٹی نے اس دباو کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لیو نے آج تک پر امن جد وجہد کی ہے جس میں تشدد کا عنصر کبھی غالب نہیں آیا۔ وہ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ریاست کے مجرم کیسے ہوئے ، یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی ۔جس کے کچھ دن بعد ہی لیو شاوبو کو امن ایوارڈ دینے کا اعلان کردیا گیا ۔ اس پر چین نے ناروے کے سفیر کو دفتر طلب کرکے ان سے اس فیصلے پر احتجاج کیا مگر اس کے ساتھ ہی امریکی صدر نے لیو کی رہائی کا مطالبہ بھی داغ دیااور کہا کہ چین نے اقتصادی ترقی تو کی مگر سیاسی اصلاحات نافذ نہیں کیں۔

امن ایوارڈ کی تقریب کے بائیکا ٹ کے ساتھ چین نے اپنا احتجاج تو بھرپور انداز میں ریکارڈ کروایا اور اپنے ہمنوا ممالک کو بھی اس میں شرکت سے روکا ۔لیکن محسوس یہی ہوا کہ چین کا یہ جارحانہ رویہ وہ بھی انسانی حقوق کے ایک پر امن علمبردار کے خلاف ، ایک منفی تاثر ہے جو اس کے خلاف قائم ہواہے۔ بہرحال چین نے یہ انعام لیو شاوبو کو دینا ، ایک سیاسی ڈھونگ قرار دیا ہے جس کی آڑ میں اس کی خودمختاری میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن دنیا کے اس عظیم امن پسند کو نوبل انعام دئیے جانے کا بھر پور انداز میں خیر مقدم بھی کیا جا رہا ہے ۔

Wednesday, January 26, 2011

Fear of Law should be produced in Pakistan


بااثرافراد کو نہ پکڑنے کا کلچرختم ہونا چاہئے، چیف جسٹس
سنبل ادریس، اسلام آباد، پاکستان
چیف جسٹس افتخار محمدچودھری نے نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈاسکینڈل کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ بااثر افراد پر ہاتھ نہ ڈالنے کا کلچر ختم ہونا چاہئے۔ قوم کے پیسے کو شیر مادر سمجھ رکھا ہے۔ بس بہت ہو چکا آخر ایسا کب تک ہوتا رہےگا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس خلیل الرحمن رمدے اور جسٹس ثائر علی پر مشتمل بنچ نے این آئی سی ایل کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمدچودھری نے تفتیش کرنیوالے افسروں کوتبدیل کئے جانے پربرہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ایف آئی اے انہیں واپس لائے ورنہ عدالت تبادلے کے احکامات منسوخ کر دیگی۔

عدالت نے سیکرٹری کامرس کو این آئی سی ایل کی آڈٹ رپورٹ سمیت طلب کرلیا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ این آئی سی ایل میں پانچ ارب روپے کا نقصان ہوا،ایک ملزم محمد مالک کو گرفتار کیا ہے۔ جس نے بتایا کہ اس نے بائیس کروڑ کی رقم مونس الٰہی کو دی ۔ محمد مالک الطہور انٹرنیشنل کا منیجر ہے اور یہ کمپنی مونس الٰہی کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ این آئی سی ایل میں اٹھارہ ارب سے زیادہ کا اسیکنڈل ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چوروں کو بچانے کیلئے چور اکٹھے ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ اور ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کو طلب کرلیا ہے۔
انسانی حقوق ،پاکستان میں گزشتہ سال بدترین رہا
سعدیہ عبدالجبار، لندن، انگلینڈ


پاکستان2010 میں انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان تباہ کن سال ثابت ہوا۔اہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا ہےکہ پاکستان میں2010میں طالبان تشدداور مذہبی عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا۔

حکومت نے صورت حا ل کی بہتری کے لیے ناکافی اقدامات کیے اور حالات بد سے بد تر ہوتے گئے۔نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم نے 2011کی سالانہ عالمی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف عسکریت پسندی کی گئی جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی مددکی۔

جنوبی ایشیا کے ہیومن رائٹس واچ کے سنیئر محقق علی دیان حسن کا کہنا ہے کہ طالبان کے مظالم خلا میں نہیں ہورہے۔ گزشتہ برس پاکستان میں سینکڑوں افراد دہشت گردی کے حملوں میں ہلاک ہوئے،11صحافیوں کو قتل کردیا گیا،ٹارگٹ کلنگ نے کراچی کو مفلوج بنا دیا ہے اور اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں کی گئی۔

Corruption News of Bangla Desh

بنگلہ دیش، محکمہ انسداد بدعنوانی کا ڈائریکٹر رشوت لیتے ہوئے گرفتار
اسلام آباد(انٹرنیشنل ڈیسک) بنگلہ دیشی پولیس نے محکمہ انسداد بدعنوانی کے اعلی افسر کو رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔منگل کو بنگلہ دیشی پولیس کمانڈر کرنل شہزاد حسین نے میڈیا کو بتایا کہ ادارہ انسداد بدعنوانی کے ڈپٹی ڈائریکٹر شبیر حسن کو رشوت لینے کے الزام میں گزشتہ روز چٹاگانگ سے گرفتار کیا گیا ہے۔جنہوں نے اتوار کی شب اپنے دفتر میں ایک شخص سے دس لاکھ ٹکا رشوت لی۔شہزاد حسن نے بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر نے گارمنٹ ایکسپورٹ کمپنی فورانچ گروپ کے مالک سے منی لانڈرنگ کیس میں پچاس لاکھ ٹکہ طلب کئے تاہم وہ دس لاکھ ٹکہ رشوت پر رضا مند ہو گئے۔انہوں نے بتایا کہ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر کی رشوت لیتے ہوئے ویڈیو بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں اور پولیس کے پاس محکمہ انسداد بدعنوانی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے خلاف ٹھو11س ثبوت ہیں۔پولیس کے مطابق ان چالان جلد عدالت میں پیش کردیا جائے گا۔

Saturday, January 22, 2011

Telephone Fraud


پاکستان میں سیلولر ٹیلی فون فراڈ بہت زور شور سے جاری ہے بعض موبائل فونز کے اہلکار نوسر باز گروہ سے مل گئے ہیں جس سے لاتعداد پاکستانیوں سے کروڑوں روپے ہتھیالئے جارہے ہیں۔ موبائل فون ٹیلی فون اسکینڈل کی زد میں اب تک ہزاروں افراد آچکے ہیں۔ موبائل ٹیلی فون ، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس کے جدید ذریعوں سے طلبا و طالبات اور گھریلو خواتین کو بھی لوٹنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ فراڈ بڑے منظم طریقے پر ہو رہا ہے۔ اس کا انکشاف ہفتے کو اس وقت ہو اجب نوسر بازوں کے ارکان نے ایک طالب علم کو کال کر کے بتایا کہ اس کا 10 لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے اور کہا کہ طالب علم 1500 روپے کے اسکریچ کالنگ کارڈز اسکریچ کر کے ان کارڈز کے نمبرز ****-9643764 لکھوائیں۔ یہ ہماری لکی ڈرا میں آپ کا نام ڈالنے کی فیس ہے۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ کیوں کہ آپ کی کالیں مقررہ کردہ رقم سے کم ہیں اس لئے آپ 4ہزار روپے کے مزید کالنگ کارڈز خرید کر اسکریچ کریں اور ان کے نمبرز ہمیں لکھوائیں۔ یہ رقم آپ کے ٹیلی فون اکاؤنٹ میں ڈپازٹ کی جائے گی۔ یہ آپ ہی کے ہونگے اور آپ کو فون مزید استعمال کرنے کی رقم ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ نوسر باز گروہ کے رکن نے کہا کہ ان کا ہیڈ آفس ریڈکو پلازہ اسلام آباد میں ہے۔ اور وہاں کا فون نمبر ****-5608048 ہے اس پر طالب علم نے کال کر کے اس نمبر کو کنفرم کیا۔ وہاں سے بات کرنے والے اپنا نام ظہیر عباس بتایا۔ اس نے پھر اپنے سینئر باس چیف افضل سے بات کرائی۔ چیف افضل نے کہا کہ آپ کا 10 لاکھ روپے کا چیک تیار ہے لیکن اس پر دستخط کرنے کی فیس 10 ہزار روپے ہوگی لہٰذا 10 ہزار روپے کے مزید اسکریچ کالنگ کارڈز کے نمبر ہمیں لکھوائیں۔ تاکہ ہم آپ کو چیک روانہ کر سکیں۔ اس پر نو سر بازی کا شبہ پیدا ہوگیا تو طالب علم کے والد نے موبائل فون کمپنی فون کر کے اس واردات کی اطلاع دی لیکن تمام تفصیل بتانے کے باوجود کمپنی کے اہلکار نے یہ معذرت کی کہ ہم اس پر فی الوقت کوئی ایکشن نہیں لے سکتے البتہ آپ کی شکایت متعلقہ شعبہ کو بتا دیں گے موبائل فون کمپنی جو 100روپے والے کالنگ کارڈ بھی ہر کال مونیٹر کرتی ہے اور موبائل فون پر بیلنس ساتھ ساتھ بتانے کا سسٹم بھی رکھتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس سلسلے میں مزید کوئی ایکشن لینے سے معذرت کرلی۔ انہوں نے طالب علم کے والد کے اصرار کے باوجود نہ تو ان نو سر بازوں کا ٹیلی فون بلاک کیا اور نہ وہ کالنگ کارڈ جو 5500 ہزار روپے میں خریدے گئے تھے ان کو کینسل کیا۔ زبیر قصوری کے مطابق جنگ کے رابطہ کرنے پر وارد موبائل فون کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ چند دھوکے باز موبائل فون کمپنیوں کے کنکشن کے ذریعہ عوام کو انعامی اسکیموں کے نام پر لوٹ رہے ہیں اور اس حوالے سے کوئی بھی شکایت موصول ہو تو فوری طور پر موبائل نمبر بند کر دیا جاتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ وارد موبائل فون کمپنی تمام صارفین کو آگاہ کر رہی ہے کہ غیر ضروری اور متعلقہ ایس ایم ایس اور کالز پر توجہ نہ دیں اور شکایت کی صورت میں وارد کی ہیلپ لائن پر رابطہ کریں۔