پاکستان میں سیلولر ٹیلی فون فراڈ بہت زور شور سے جاری ہے بعض موبائل فونز کے اہلکار نوسر باز گروہ سے مل گئے ہیں جس سے لاتعداد پاکستانیوں سے کروڑوں روپے ہتھیالئے جارہے ہیں۔ موبائل فون ٹیلی فون اسکینڈل کی زد میں اب تک ہزاروں افراد آچکے ہیں۔ موبائل ٹیلی فون ، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس کے جدید ذریعوں سے طلبا و طالبات اور گھریلو خواتین کو بھی لوٹنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ فراڈ بڑے منظم طریقے پر ہو رہا ہے۔ اس کا انکشاف ہفتے کو اس وقت ہو اجب نوسر بازوں کے ارکان نے ایک طالب علم کو کال کر کے بتایا کہ اس کا 10 لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے اور کہا کہ طالب علم 1500 روپے کے اسکریچ کالنگ کارڈز اسکریچ کر کے ان کارڈز کے نمبرز ****-9643764 لکھوائیں۔ یہ ہماری لکی ڈرا میں آپ کا نام ڈالنے کی فیس ہے۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ کیوں کہ آپ کی کالیں مقررہ کردہ رقم سے کم ہیں اس لئے آپ 4ہزار روپے کے مزید کالنگ کارڈز خرید کر اسکریچ کریں اور ان کے نمبرز ہمیں لکھوائیں۔ یہ رقم آپ کے ٹیلی فون اکاؤنٹ میں ڈپازٹ کی جائے گی۔ یہ آپ ہی کے ہونگے اور آپ کو فون مزید استعمال کرنے کی رقم ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ نوسر باز گروہ کے رکن نے کہا کہ ان کا ہیڈ آفس ریڈکو پلازہ اسلام آباد میں ہے۔ اور وہاں کا فون نمبر ****-5608048 ہے اس پر طالب علم نے کال کر کے اس نمبر کو کنفرم کیا۔ وہاں سے بات کرنے والے اپنا نام ظہیر عباس بتایا۔ اس نے پھر اپنے سینئر باس چیف افضل سے بات کرائی۔ چیف افضل نے کہا کہ آپ کا 10 لاکھ روپے کا چیک تیار ہے لیکن اس پر دستخط کرنے کی فیس 10 ہزار روپے ہوگی لہٰذا 10 ہزار روپے کے مزید اسکریچ کالنگ کارڈز کے نمبر ہمیں لکھوائیں۔ تاکہ ہم آپ کو چیک روانہ کر سکیں۔ اس پر نو سر بازی کا شبہ پیدا ہوگیا تو طالب علم کے والد نے موبائل فون کمپنی فون کر کے اس واردات کی اطلاع دی لیکن تمام تفصیل بتانے کے باوجود کمپنی کے اہلکار نے یہ معذرت کی کہ ہم اس پر فی الوقت کوئی ایکشن نہیں لے سکتے البتہ آپ کی شکایت متعلقہ شعبہ کو بتا دیں گے موبائل فون کمپنی جو 100روپے والے کالنگ کارڈ بھی ہر کال مونیٹر کرتی ہے اور موبائل فون پر بیلنس ساتھ ساتھ بتانے کا سسٹم بھی رکھتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس سلسلے میں مزید کوئی ایکشن لینے سے معذرت کرلی۔ انہوں نے طالب علم کے والد کے اصرار کے باوجود نہ تو ان نو سر بازوں کا ٹیلی فون بلاک کیا اور نہ وہ کالنگ کارڈ جو 5500 ہزار روپے میں خریدے گئے تھے ان کو کینسل کیا۔ زبیر قصوری کے مطابق جنگ کے رابطہ کرنے پر وارد موبائل فون کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ چند دھوکے باز موبائل فون کمپنیوں کے کنکشن کے ذریعہ عوام کو انعامی اسکیموں کے نام پر لوٹ رہے ہیں اور اس حوالے سے کوئی بھی شکایت موصول ہو تو فوری طور پر موبائل نمبر بند کر دیا جاتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ وارد موبائل فون کمپنی تمام صارفین کو آگاہ کر رہی ہے کہ غیر ضروری اور متعلقہ ایس ایم ایس اور کالز پر توجہ نہ دیں اور شکایت کی صورت میں وارد کی ہیلپ لائن پر رابطہ کریں۔
Development Institute for Social Control, Organization, Vigilance, Education and Research.
Saturday, January 22, 2011
Wednesday, January 19, 2011
De-Weaponization in Pakistan
Share | غیر قانونی اسلحہ کا خاتمہ، ماضی میں ہونے والے اقدامات غیر موثر رہے | |
لاہور (صابر شاہ) اگرچہ ایم کیو ایم کا ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کے حوالے سے بل سرکاری کارروائی میں شامل ہو چکا ہے تاہم ملکی تاریخ میں یہ اس نوعیت کا پہلا اقدام نہیں ہے۔ بلاشبہ 1965 سے گاہے بگاہے اس طرح کے اقدامات ہوئے۔ کیا یہ غیر قانونی اسلحہ کے خاتمہ میں غیر موثر رہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے حالیہ بل پیش کئے جانے سے پچھلی دہائی کے دوران مشرف حکومت کی طرف سے غیر قانونی اسلحہ کے خلاف کی گئی کارروائیوں کی افادیت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 10 جنوری 2002ء کی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ 2000 اور 2001ء کے دوران مشرف حکومت نے اس کی قرارداد نمبری 1373 پر عملدرآمد کرتے ہوئے ملک کواسلحہ سے پاک کرنے کی مہم چلائی۔ مشرف حکومت کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق یکم مارچ 2000ء کو اسلحہ کی سرعام نمائش پر پابندی لگائی، جس کے بعد اس پابندی کوتوڑنے والوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور مجرم ثابت ہونے والوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ رپورٹ میں مزید کہا جاتا ہے کہ 15 فروری 2001ء کو اسلحہ لائسنسوں کے اجراء پر پابندی لگائی گئی اور یکم جون 2001ء کو 87 ہزار ہتھیار رضاکارانہ طور پر جمع کرائے گئے جبکہ 38990 بعدازاں قبضہ میں لئے گئے۔ رپورٹ میں واضح طور پر بیان کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے دی گئی مہلت ختم ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 21163 چھاپے مارے اور 22936 کیس درج کر کے 24081 افراد کو گرفتار کیا۔ |
De-Weaponization in Pakistan
Share | غیر قانونی اسلحہ کا خاتمہ، ماضی میں ہونے والے اقدامات غیر موثر رہے | |
لاہور (صابر شاہ) اگرچہ ایم کیو ایم کا ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کے حوالے سے بل سرکاری کارروائی میں شامل ہو چکا ہے تاہم ملکی تاریخ میں یہ اس نوعیت کا پہلا اقدام نہیں ہے۔ بلاشبہ 1965 سے گاہے بگاہے اس طرح کے اقدامات ہوئے۔ کیا یہ غیر قانونی اسلحہ کے خاتمہ میں غیر موثر رہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے حالیہ بل پیش کئے جانے سے پچھلی دہائی کے دوران مشرف حکومت کی طرف سے غیر قانونی اسلحہ کے خلاف کی گئی کارروائیوں کی افادیت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 10 جنوری 2002ء کی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ 2000 اور 2001ء کے دوران مشرف حکومت نے اس کی قرارداد نمبری 1373 پر عملدرآمد کرتے ہوئے ملک کواسلحہ سے پاک کرنے کی مہم چلائی۔ مشرف حکومت کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق یکم مارچ 2000ء کو اسلحہ کی سرعام نمائش پر پابندی لگائی، جس کے بعد اس پابندی کوتوڑنے والوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور مجرم ثابت ہونے والوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ رپورٹ میں مزید کہا جاتا ہے کہ 15 فروری 2001ء کو اسلحہ لائسنسوں کے اجراء پر پابندی لگائی گئی اور یکم جون 2001ء کو 87 ہزار ہتھیار رضاکارانہ طور پر جمع کرائے گئے جبکہ 38990 بعدازاں قبضہ میں لئے گئے۔ رپورٹ میں واضح طور پر بیان کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے دی گئی مہلت ختم ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 21163 چھاپے مارے اور 22936 کیس درج کر کے 24081 افراد کو گرفتار کیا۔ |
Subscribe to:
Posts (Atom)