Pakistan Army - Corruption - Fauj - Mauj

فوج ظفر موج


اب پھر غلغلہ اٹھا ہے کہ سیاستداں ناکام ہوچکے اور اس ملک کو بچانے کا صرف اور صرف آخری راستہ فوج کی آمد ہے۔ اور پھر عام آدمی جو واقعی خود غرض، لٹیری، بدعنوان اور مجرم سیاستدانوں کے ہاتھوں تنگ آیا ہوا ہے‘ مجبوری کا نام شکریہ کے مصداق فوج کو مرحبا کہنے پر تیار ہے۔ مگر کیا فوج کی آمد واقعی مسائل کا حل ہے یا پھر ہم ایک نئی سازش کا شکار ہونے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان سوالات کا جواب ضروری ہے کہ کیا فوج واقعی امن و امان قائم کردے گی اور کیا واقعی سارے لٹیروں اور مجرموں سے ملک کو پاک کرکے قومی اثاثوں کی حفاظت کرے گی؟ اگر یہ سوالات آج سے 30 برس پہلے کئے گئے ہوتے تو یقینا ان کا جواب دینا مشکل ہوتا اور لوگ باگ قیاس کی بنیاد پر ان کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ مگر آج ان کا جواب دینا چنداں مشکل نہیں ہے۔ بس ذرا ماضی قریب کی تاریخ کو کھنگالتے ہیں اور حال پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ کرپشن کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی حضرت انسان کی۔ مگر پاکستان میں آج جو صورتحال ہے وہ جنگ زدہ علاقوں میں بھی نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور کہا جاتا ہے کہ کرپشن سے بھر پور تھا۔ اور ان کے دور میں جام صادق علی کا نام سرفہرست تھا۔ ایک روایت کے مطابق بھٹو نے جام صادق سے کہا تھا کہ بس اتنا خیال کرلینا کہ مزار قائد کو نہ بیچ دینا۔ مگر اس جام صادق کی جائیداد اور بینک بیلنس کا اگر آج کے کسی منافع بخش منصب پر براجمان ایک میجر سے بھی کیا جائے تو جام صادق کی کوئی اوقات نظر نہیں آئے گی۔ ضیاءدور کے تمام جنرلوں اور دیگر فوجی افسران کے اثاثہ جات دیکھ لیجئی، مشرف دور کے افسران کے اثاثہ جات دیکھ لیں۔ مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ منظم کرپشن میں بھی فوج کا کوئی ثانی نہیں۔ اس وقت سب سے بڑی لینڈ مافیا آرمی ویلفیئر ٹرسٹ ہے۔ دیگر دونوں افواج گو اس سے بہت پیچھے ہیں مگر اتنی بھی نہیں۔ بحریہ فاو¿نڈیشن کا گو کہ بحریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر اعلیٰ افسران کے ساتھ رابطے نے اس کو بحریہ کا نام استعمال کرنے کی اجازت بھی دی ہوئی ہے ۔ اسی طرح تینوں مسلح افواج کے پبلک تعلیمی ادارے بھی عوام کو لوٹنے کا آسان ذریعہ ہیں جو تمام وسائل مسلح افواج کے استعمال کرتے ہیں یعنی عوام کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں۔ آرمی کا جو اہلکار وہ ٹیکس بھی ادا کرنے کو تیار نہ ہو جو دہاڑی کمانے والا ایک عام مزدور بھی ادا کرتا ہے تو وہ ملک کی کیا خدمت کرے گا۔ جی ہاں ان کے تمام اسٹورز پر جو سامان دستیاب ہے اس پر کسی قسم کا کوئی سیلز ٹیکس یا ایکسائیز ڈیوٹی نہیں ہے۔ یہ ٹیکس ہر پاکستانی شہری ادا کرنے پر مجبور ہے۔ یہ افسر و اہلکار بلا کسی ڈیوٹی کے سینما پر فلم دیکھنے کے بھی حقدار ہیں اور رعایتی ٹکٹ پر ریلوے و فضائی سفر کے بھی۔ اس وقت مجھے پھر ایک پرانا واقعہ یاد آرہا ہے۔ شکیل ڈھنگرا ایک تاجر رہنما ہے۔پرویز مشرف کا نیا نیا مارشل لا لگا تھا۔ اس وقت شکیل وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کی کمیٹی برائے کسٹم کا سربراہ تھا اور کراچی کی بندرگاہوں پر مس ڈیکلیریشن کے ذریعے اسمگلنگ یا کسٹم ڈیوٹی کی عدم ادائیگی کے خلاف برسر پیکار تھا۔ میں روزنامہ دی نیوز میں بزنس رپورٹنگ کررہا تھا۔ ایک شام شکیل کا پر جوش فون موصول ہوا۔ کہنے لگا یار اب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ کراچی بندرگاہ پر فوج آگئی ہے۔ مس ڈیکلیریشن کرنے والوں کا رنگ اڑا ہوا ہے۔ اب سب کو دیکھ لوں گا۔ اس کے جواب میں، میں نے کہا۔ اوئے بھولے بادشاہ۔ یہ کرپشن کیوں ختم ہوگی۔ بس حصہ داروں کا اضافہ ہوجائے گا۔ میں نے کہا کہ تمہارے خیال میں جتنی بھی اسمگلنگ ہوتی ہے وہ سب کی سب کراچی کی بندرگاہ سے ہوتی ہے۔ یہ تو پوری مقدار کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ پوری پاکستانی سرحد پر فوج یا نیم فوجی دستے رینجرز ، لیویز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری تعینات ہیں۔ ان نیم فوجی دستوں کے تمام افسران کیپٹن سے لے کر میجر جنرل تک فوج کے حاضر سروس افسران ہوتے ہیں۔ پھر تھر کے راستے بھارت سے ہونے والی اسمگلنگ اب تک کیوں نہیں رکی؟ افغانستان اور ایران کو پابندی کے باوجود ٹرکوں کی لائن گندم، چینی اور کھاد وغیرہ لے کر جارہی ہوتی ہی، ان کو کوئی کیوں نہیں روکتا؟ کوسٹ گارڈ ساحلوں پر تعینات ہے پھر کیسے اسمگلنگ ہورہی ہے۔ ان سب جگہوں پر تو پہلے سے فوج تعینات ہے۔ میں نے شکیل سے کہا کہ بھائی بلدیہ میں وہ بد عنوانی کو روکے گا جو پہلے کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈیفنس ہاو¿سنگ اتھارٹی میں ختم کرے۔ اسپتالوں میں وہ معاملات صحیح کرے گا جو پہلے اپنے اسپتالوں کے معاملات شفاف کرلے۔ یہ دنیا کا اوپن سیکرٹ ہے کہ اسلحہ کی خریداری پر آفیشل 3 فیصد کمیشن پیش کیا جاتا ہے۔ اور اگر معاملہ ذرا ادھر ادھر ہو تو یہ فیصد بڑھ جاتا ہے۔ آخر آج تک قوم کو کیوں نہیں بتایا گیا کہ امریکا نے ایف سولہ طیاروں کی رقم میں کتنی کٹوتی کی تھی اور کن کن مدات میں کی تھی۔ کچھ اسی طرح کا تاثر اس قوم کا نیب کے قیام پر بھی تھا۔ ہماری قوم بھی شکیل ڈھنگرا کی طرح ہر ایک سے آس لگالیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ مگر اس ایک سوراخ سے تو یہ قوم متعدد مرتبہ ڈسی جاچکی ہے۔یہ کے ای ایس سی اور پی ٹی سی ایل فوجی دور میں ہی مفت بانٹی گئی تھیں۔ پی آئی ای، پاکستان اسٹیل اور ریلوے اس حال کو اسی دور کے کارناموں کی وجہ سے پہنچی ہیں۔پی ایس او اور گیس کمپنیاں آج برے حال میں کے ای ایس سی کو بزور قوت مفت ایندھن فراہم کرنے کی پاداش میں پہنچی ہیں۔ اب دوسرے رخ کی طرف آتے ہیں کہ کیا ہم پھر کسی ایک نئی سازش کا شکار ہونے جارہے ہیں۔ عالمی سازش کاروں کو جب اس خطہ میں ایک نئے کھیل کا آغاز کرنا تھا تو وہ ضیاءالحق کو برسراقتدار لے آئے اور جب وہ ان کے کام کا نہیں رہا تو راستے سے ہٹا بھی دیا۔ اسی طرح جب دوبارہ ان سازش کاروں کو اس خطہ میں ایک نئے راو¿نڈ کا آغاز کرنا تھا تو وہ پرویزمشرف کو لے آئے۔ اس نکتہ کو صاف کرلیجئے کہ مشرف کا مارشل لاءاچانک نہیں آیا تھا بلکہ اس کی منصوبہ بندی بہت پہلے سے ہورہی تھی۔ نواز شریف نے تو ان اطلاعات کے بعد کہ بغاوت تیار ہی، پیش بندی کے طور پر مشرف کو ہٹانا چاہا تھا جس میں وہ ناکام رہے۔ اس کھیل میں جنرل عثمانی ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے رکا ہوا تھا۔ آخری وقت تک جنرل عثمانی نے پس و پیش کی اسی وجہ سے مشرف کا طیارہ فضاءسے زمین پر نہیں آسکا تھا۔بعد ازاں دیگر جنرلوں کی اس دھمکی پر کہ اگر انہوں نے یہ ایکشن نہ لیا تو خود ان کے خلاف بغاوت ہوجائے گی۔ جنرل عثمانی نے کراچی ایرپورٹ کو ٹیک اوور کیا اور مشرف فضاءسے زمین پر آپائے تھے۔ یہ بات مشرف کے دل میں تھی اسی وجہ سے جنرل عثمانی کو موقع ملتے ہی کھڈے لائن لگادیا گیا اور ریٹائرمنٹ کے بعد نہ تو کسی جگہ کھپایا گیا اور نہ ہی روایت کے مطابق منصب سفارت پیش کیا گیا۔ عالمی سازش کار بہت پہلے سے اس سازش کی آبیاری کررہے تھے اور جب خدمت کا موقع آیا تو مشرف نے ان کو مایوس نہیں کیا بلکہ انہی کے الفاظ میں انہوں نے توقع سے بڑھ کر خدمت کی۔ اب چند معصوم افرادکے علاوہ دیکھیے کہ اس کا مطالبہ کون کررہا ہے۔ سب سے پہلے ایم کیو ایم جو ایک فوجی آمر ضیاءکی پیدا کردہ اور دوسری زندگی کے لیے مشرف کی احسان مند ہے۔ ایک تو ایم کیو ایم کو فوجی آمریت ہی راس آتی ہے دوسرے اس کے آقا برطانیہ یا عالمی سازش کا روں کے ایجنٹ کی بھی یہی منشاءہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے زیر اثر تاجر رہنما یا عالمی سازش کاروں کے براہ راست ایجنٹ این جی اوز ایک دوسرے سے بڑھ کر یہ مطالبہ کررہے ہیں۔ دوسری جانب کنٹرولڈ میڈیا اور پھر تنخواہ دار اینکر پرسنز اس کی ہمنوائی کرکے ماحول تیار کررہے ہیں۔ اللہ خیر کرے کہ یہ کس نئی سازش کی منصوبہ بندی ہے۔ فوج آنے کا مطلب ہے کہ خطہ میں ایک نئی جنگ۔ کم از کم تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔

Comments