UN donated hitech devices to Sindh Police fails during terrorist investigation and interrogations Voice Stress Analyzer and Explosive Analyzer TRU Defender



اقوام متحدہ اور امریکا کی طرف سے دیا گیا جھوٹ پکڑنے والا آلہ پاکستان میں ناکام
 اقوام متحدہ اور امریکا کی جانب سے کراچی پولیس کو جھوٹ پکڑنے کے دیئے گئے2 اینالائزر ملزمان کے سامنے بے بس ہو گئے اور سی آئی ڈی نے پاکستانی طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں سمیت خطرناک دہشت گردوں سے تفتیش کے دوران ان کا استعمال ترک کردیا ہے۔ ایک سینئر پولیس افسرکا کہنا ہے کہ یہ آلات پاکستانی ملزمان کے لئے نہیں بنے کیونکہ جھوٹ بولنا اور مکروفریب ہمارے معمولات کا حصہ بن چکا ہے اس لئے یہ آلات پاکستانی ملزمان کا جھوٹ پکڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ ”جنگ“ کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ اور امریکا کی جانب سے گزشتہ دو سالوں کے دوران کراچی پولیس کو جھوٹ پکڑنے کے2 عددVoice Stress Analyzer، دو عددExplosive Analyzer TRU Defender (بموں اور ٹائمر کو ناکام بنانے کے آلات)، ایک ٹویوٹا ہائی روف وین، 4 ڈبل کیبن پک اپ ٹرک جب کہ 500 جامہ تلاشی لینے کے آلات (Civil Disturbance Managment Equipment Sets) دیئے ہیں۔ جب کہ کراچی پولیس کو دی جانے والی ٹویوٹا ہائی روف وین میں ایسے آلات نصب ہیں کہ وہ کسی سڑک سے گزر رہی ہو اور اس کے قریب بم نصب ہو یا بارود چھپایا گیا ہو تو اس میں الارم بج جاتے ہیں۔ آئی جی سندھ مشتاق شاہ نے ”جنگ“ کے رابطہ کرنے پر ان آلات کے ملنے کی تصدیق کی اور کہا کہ خطرناک ملزمان کی گرفتاریوں اور ان سے کامیاب تفتیش کے لئے مذکورہ آلات اور گاڑیاں سی آئی ڈی کو دی گئی ہیں جو پورے سندھ میں کارروائیوں کے دوران ان کو استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح ایس ایس پی سی آئی ڈی فیاض خان نے بھی ان آلات کے ملنے کی تصدیق کی اور کہا کہ سی آئی ڈی کی لیبارٹریز میں یہ اور اس جیسے دیگر جدید آلات نصب کئے گئے ہیں جب کہ ان سمیت سی آئی ڈی کے سینئر افسران کو ان آلات کے استعمال اور ان سے بہتر نتائج کے حصول کے لئے کئی ماہ کی تربیت بھی دی گئی ہے اور اب بھی سی آئی ڈی کے افسران وقتاً فوقتاً جدید آلات کے استعمال اور تفتیش کے کورس ملک اور بیرون ملک کرنے کے لئے جاتے رہتے ہیں تاہم انہوں نے جھوٹ پکڑنے کے آلات کے نتائج پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ سی آئی ڈی کے ایک اور سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ وائس اسٹریس اینالائزر پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں استعمال نہیں کئے جا سکتے کیونکہ یہ یورپ کی طرح مثبت نتائج نہیں دیتے۔ اس افسر کا کہنا ہے کہ یہ ایک لیپ ٹاپ ٹائپ کا آلہ ہے جسے ملزم کے سامنے رکھ کر اس سے پہلے سوالات جو کئے جاتے ہیں اور یہ سوالات اس لیپ ٹاپ کے سوفٹ ویئر میں محفوظ ہوتے ہیں ان میں ملزم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی طبیعت تو خراب نہیں اگر اس نے جواب دیا کہ ہاں میری طبیعت خراب ہے اور میں تفتیش میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوں تو لیپ ٹاپ کام کرنا بند کر دے گا جب کہ اس افسر کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں اکثر ملزمان پولیس کو تفتیش کے لئے آمادہ دیکھ کر اس طرح کے بہانے تراشتے ہیں اور بعض اوقات مکروفریب کے ایسے کھیل کھیلتے ہیں کہ پولیس بھی ان کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے یا پھر وہ واقعی دھوکہ کھا جاتی ہے۔ وزارت داخلہ کے مشیر شرف الدین میمن کا اصرار ہے کہ ان آلات کے ملنے سے نہ صرف کراچی پولیس کو ملزمان پر سبقت حاصل ہوئی ہے بلکہ سی آئی ڈی کو جدید خطوط پر استوار کر کے اسے ترقی یافتہ ملکوں کے معیار کے مطابق لانے میں بھی حکومت کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جب کہ سی آئی ڈی کے سینئر افسر کا کہنا ہے کہ یورپ میں عام طور پر لوگ جھوٹ نہیں بولتے اور خاص طور پر قانون کے شکنجے میں آنے کے بعد تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے جرم کا اقرار کر کے سزا کم سے کم حاصل کریں کیونکہ ان کے قوانین میں اس طرح کی رعایتیں بھی موجود ہیں کہ اگر ملزم تفتیشی ٹیم سے تعاون کرے اور رضاکارانہ طور پر اقرار جرم کرلے تو اسے کم سے کم سزا دی جاتی ہے جب کہ ہمارے ہاں صورتحال بالکل ہی برعکس ہے اس لئے ہمارے یہاں وائس اسٹریس اینالائزر بہتر نتائج دینے میں ناکام رہے ہیں اور سی آئی ڈی کے سینئر تفتیشی افسران ان آلات کو بہت کم استعمال کرتے ہیں اور اس کی بجائے پاکستان کے روایتی طریقہ تفتیش میں وہ نہ صرف جلد کامیابی حاصل کر لیتے ہیں بلکہ ملزم سے اصل راز اگلوانے اور اقرار جرم کروانے میں بھی کامیابی کا گراف نمایاں رہتا ہے۔

Comments