این ایل سی سکینڈل ۔۔۔۔پبلک اکاونٹس کمیٹی سے فوجی انکوائری تک

منافع بخش اور کامیاب ادارے کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے کرداروں کا احتساب!

عون علی

23 نومبر کو افواج پاکستان کے دفتر تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) سے جاری کیے گئے ایک مختصر بیان میں کہا گیا تھا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے نیشنل لاجسٹک سیل( این ایل سی) میں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی ایک کور کمانڈر اور میجر جنرل کے عہدے کے دو افسران پر مشتمل ہو گی اور تحقیقات مکمل ہونے پر عسکری قواعد و ضوابط کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

حاضر سروس فوجی افسران کی سربراہی میں چلنے والے نیم فوجی ادارے نیشنل لاجسٹک سیل ( این ایل سی)میں منظر عام پر آنے والی مبینہ مالی بے ضابطگیوں کی فوجی افسران کی طرف سے تحقیقات کا یہ فیصلہ بظاہر ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پبلک اکاونٹس کمیٹی گذشتہ قریب دو برس کی تحقیقات کے بعد اس حوالے سے واضح نتائج تک پہنچ چکی تھی اور کمیٹی کے بعض ممبران کے بقول وہ دسمبر میں کمیٹی کے اجلاس کے دوران اپنی انکوائری رپورٹ پارلیمان میں پیش کرنے والے تھے۔ واضح رہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس وقت این ایل سی کے حوالے سے تین مختلف کیسوں پر انکوائری کررہی تھی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں این ایل سی کی یہ انکوائری جنوری2009ءسے جاری ہے تاہم اس دوران فوج میں داخلی سطح پر اس حوالے سے تحقیقات کا کبھی امکان ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق2003ءمیں اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کی واضح ہدایات کے برعکس این ایل سی کے اعلیٰ عہدیداروں نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے این ایل سی کو اربوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں این ایل سی کی اس” سٹہ بازی“ کے لیے این ایل سی کے پنشن فنڈ کے لیے مختص رقوم استعمال کی گئےں، اس کے علاوہ چار مختلف بینکوں سے بھاری شرح سود پر حاصل کی گئی دو ارب سے زائد رقم بھی این ایل سی کے ذمہ داران نے اس ”سرمایہ کاری“ کی نذر کر دی۔ این ایل سی نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے بینکوں سے جو قرض حاصل کیے اس کی تفصیل اس طرح ہے: یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ 80 کروڑ روپے،بینک الفلاح 65 کروڑ، الائیڈ بینک لمیٹڈ 50 کروڑ،نیشنل بینک آف پاکستان نو کروڑ۔ ان قرضوں کی قسطیں بمعہ سود اب این ایل سی ادا کر رہا ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اپنی تحقیقات میں این ایل سی کے جن عہدیداروں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے اُن میں لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل مظفر، لیفٹیننٹ جنرل خالد منیر خان، سابق ڈائریکٹر جنرل این ایل سی میجر جنرل خالد ظہیر، چیف فنانس آفیسر سعید الرحمن اور ڈائریکٹر فنانس اینڈ اکاؤنٹس نجیب اللہ کے نام شامل ہیں۔ مذکورہ تینوں فوجی افسرا ن اب ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ سعید الرحمن وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے (کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی) کے چیف فنانس منیجر کے عہدے پر اپنی قابل خدمات پیش کررہے ہیں۔

گذشتہ قریب دو برس کے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے این ایل سی کے معاملے میں جو تحقیقات کی ہیں ان میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ستمبر2003ءمیں این ایل سی کے بورڈ کی میٹنگ کے دوران وزیر خزانہ شوکت عزیز نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے اجتناب کی ہدایت کی تھی۔ واضح رہے کہ نیشنل لاجسٹک بیورو کے چیئرمین کی حیثیت میں بھی این ایل سی وزیر اعظم کی اس ہدایت پر عمل کا پابند ہے۔ اِس کے بعد جنوری2005ءمیں بھی شوکت عزیز کی طرف سے ہدایت کی گئی کہ سیکرٹری فنانس کے مشورے سے این ایل سی کو سٹاک مارکیٹ سے اپنا سرمایہ نکالنے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے جبکہ دسمبر2007ءمیں این ایل سی کے بورڈ کی میٹنگ کے دوران وزیراعظم کی ہدایت پر قائم کردہ ایگزیکٹو کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں جن میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا کہ این ایل سی کو سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے باز رہنا چاہےے اور فاضل سرمایے کے استعمال کے لیے فنانس ڈویژن سے ہدایت لینی چاہیے۔ تاہم اس کے سراسر الٹ ہوا۔ این ایل سی نے سٹاک مارکیٹ سے نہ تو اپنا سرمایہ نکالنے کی کوئی حکمت عملی طے کی اور نہ ہی اپنے حصص کو بہتر قیمت ملنے کے باوجود فروخت کیا۔ چنانچہ حصص کی قیمت گرتی چلی گئی اور این ایل سی کا سرمایہ سٹاک مارکیٹ میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس طرح صرف گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اس ادارے نے کم ازکم دو ارب روپے کے قریب رقم سٹاک مارکیٹ میں سٹہ بازی کی نذر کی ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے این ایل سی کے کیس کی تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ ادارہ صرف اپنا فاضل سرمایہ کسی کاروبار میں لگانے کا مجاز ہے تاہم اس ادارے نے دو ارب سے زائد رقم بینکوں سے قرض لے کر سٹاک مارکیٹ میں جھونک دی۔ علاوہ ازیں این ایل سی صرف اپنے فاضل سرمائے کا 20 فیصد سکیورٹیز میں لگا سکتا ہے مگر 2003ءسے 2008ءکے دوران اِس ادارے نے پنشن فنڈ اور بینکو ں کے قرضے کی چار ارب روپے سے زائد رقم سٹاک میں لگا دی، اور یہ سب کچھ ایسے انداز میں کیا گیا ہے جس پر کئی خدشات ابھرتے ہیں۔ مثلاً این ایل سی نے سرمایہ کاری کے حوالے سے کبھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ایسی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے پاس ادارے کی طرف سے سرمایہ کاری کا اختیار ہو۔پبلک اکاونٹس کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق این ایل سی کی طرف سے سرمایہ کاری کے حجم کا سالانہ جائزہ لیا جانا چاہیے تھا ، تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔علاوہ ازیں این حصص کو بہتر نرخوں پر فروخت کرنے کے مواقع سے بھی فائدہ نہیں اُٹھایا گیا۔ اس صورتحال سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ اس ادارے کو سٹاک مارکیٹ میں صرف سرمایہ لگانے میں دلچسپی تھی، منافع بخش مواقع سے فائدہ اٹھانے میں قطعاً سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ اکتوبر 2009ءمیں کمیٹی کی انکوائری کے دوران انکشاف ہوا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر 2008ءمیں اپنی ریٹائرمنٹ کے دن تک این ایل سی کی طرف سے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے رہے۔ملکی سٹاک مارکیٹ کی دگرگوں صورتحال کے پیش نظر دیگر سرکاری اداروں نے اگرچہ 2006ءسے سٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا تھا، تاہم این ایل سی نے یہ روش ترک نہیں کی۔ چنانچہ اس شک کی بنا پر کہ اس سراسر گھاٹے کے کام میں این ایل سی کی دلچسپی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس کی بروکر کمپنیوں اور ان کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کی معلومات بھی طلب کیں۔کمیٹی کی انکوائری میں یہ بھی واضح ہوا کہ این ایل سی نے بروکرزکے تعین کے حوالے سے ایک اصول تو وضع کیا تھا تاہم اس اصول پر کبھی عمل نہیں کیا ۔

این ایل سی کی طرف سے سرمایہ کاری کے غیر شفاف منصوبوں کی فہرست میں سٹاک مارکیٹ کی سرمایہ کاری کی منفی مہم جوئی کے علاوہ دس کروڑ روپے کی لاگت سے بنائی گئی انرجی ڈیویلپمنٹ سروس کمپنی (ای ڈی ایس سی)، ہوٹلوں اور شاپنگ پلازوں کی تعمیرات کے منصوبے اور بعض ایسے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے بھی شامل ہیں جو اس ادارے نے خود مکمل کرنے کے لیے حاصل کیے مگر بعد میں یہ آگے ٹھیکیدار اداروں کے سپرد کر دیے۔ حیران کن طور پر یہ سبھی غیر شفاف منصوبے 2006ءاور 2008ءکے دوران تشکیل دیے گئے ہیں۔ انرجی ڈیویلپمنٹ سروس کمپنی اگست 2007ءکے دوران قائم کی گئی اور اسے چلانے کے لیے ایک ڈائریکٹر جنرل اور تین ڈائریکٹر بھی بھرتی کیے گئے۔ اس کمپنی نے تھرکوئل فیلڈ میں تیل اور گیس کے منصوبوں پر کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا تھا۔ اس کاروبار میں ایل پی جی اور بجلی کی پیداوار کا کام بھی شامل تھا۔ تاہم ای ڈی ایس سی صرف نو ماہ تک قائم رہی اور جون2008ءمیں اسے اچانک بند کر دیا گیا ۔ اِس وقت تک اس کا خسارہ20 ملین روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس طرح این ایل سی نے صوابی کیڈٹ کالج اور پشاور یونیورسٹی کی کچھ عمارتوں کی تعمیر کا ٹھیکہ حاصل کیا مگر اسے خود مکمل کرنے کے بجائے آگے کسی دوسرے ٹھیکے دار کو منتقل کر دیا، ان ٹھیکے داروں نے ان میں سے کوئی منصوبہ بھی مکمل نہیں کیا ۔اس طرح 2008ءمیں این ایل سی نے اپنے جونیئر افسران کے استعمال کے لیے سات ٹو یو ٹا لینڈ کروز گاڑیاں در آمد کیں، ان گاڑیوں کی درآمد کے لیے این ایل سی نے کسٹمز سے استثنا حاصل کر نے کے لیے یہ ظاہر کیا کہ گاڑیاں دفاعی سروسز کے لیے درآمد کی جا رہی ہیں اور ان کی قیمت بھی دفاعی بجٹ ہی سے ادا کی گئی ہے۔ این ایل سی کا ایک اور ناکام اور نا مکمل منصوبہ اسلام آباد میں رہائشی عمارات ، شاپنگ مال اور فائیوسٹار ہوٹل کی تعمیر کا تھا۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پلاننگ ڈویژن کی طرف سے این ایل سی کی سرمایہ کاری کا جو ریکارڈ پیش کیا گیا اس سے ظاہر ہوا ہے کہ 2006ءاور 2007ءمیں این ایل سی نے اسلام آباد کے مہنگے ترین علاقے بلیو ایریا میں فائیو سٹار ہوٹل، شاپنگ مال اور رہائشی عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے دو پلاٹ خرید ے تھے۔ اِس منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ کے لیے این ایل سی نے ”ہاروکنسٹرکشن سروسز“ نامی اسلام آباد کی کسی غیر معروف تعمیراتی کمپنی کو32ملین روپے کا ٹھیکہ بھی دیا۔ بعد میں این ایل سی کے ذمہ داران نے یہ منصوبہ معطل کردیا تاہم مارچ 2008ءمیں ”ہارو کنسٹرکشن سروسز“ کو فزیبلٹی کے لیے طے شدہ رقم ادا کر دی گئی۔

پبلک اکاونٹس کمیٹی نے این ایل سی کے ادارے میں اصول و ضوابط کی خلاف ورزی اور واضح ہدایات سے انحراف کے ثبوتوں کی بنا پر گذشتہ قریب دو برس کے دوران خاصی دلجمعی سے انکوائری کی ہے۔ اور اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ مسلح افواج کے سربراہ کو اس حوالے سے خود نوٹس لینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی نے اس دو برس کے عرصے کے دوران خود کو پلاننگ ڈویژن کی طرف سے فراہم کردہ آڈٹ رپورٹوں اور این ایل سی کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات تک ہی محدود ر رکھا ہے۔سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اشرف حیات نے پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے سامنے یہ تسلیم کیا تھا کہ سابقہ انتظامیہ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے این ایل سی کو خاصا خسارہ برداشت کرنا پڑرہا ہے نیز یہ کہ چیف آف آرمی سٹاف نے ہدایت کی ہے کہ این ایل سی کے تحت وہ تمام کاروبار بند کیے جائیں جو نیشنل لاجسٹک سیل کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔تاہم کمیٹی نے اس دوران تحقیقات میں قصور وار ظاہر ہونے والے این ایل سی کے اعلیٰ عہدیداروں کو جرح کے لیے کبھی طلب نہیں کیا۔پبلک اکاونٹس کمیٹی کے ممبر ندیم افضل گوندل کے بقول کمیٹی نے اس معاملے کو ہائی لائٹ کیا اور این ایل سی کے موجودہ سربراہ سے کہا کہ وہ اس خرد برد کے مرتکب افراد کا تعین کریں۔اصولی طور پر پبلک اکاونٹس کمیٹی کو اس خرد برد کے مرتکب افراد سے خود جرح کرنی چاہیے تھی ۔ ایسا نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ ابھی تک یہ انکوائری محض یک طرفہ کارروائی کی حد تک ہے۔ اکتوبر 2009ءکے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایک موقع پر اس امر کا جائزہ بھی لیا تھا کہ بے ضابطگی کے مرتکب افراد یعنی تین جنرل اور دو سول افسروں کو کمیٹی کے سامنے طلب کیا جائے اور ان سے نقصان کا ازالہ کروایا جائے ۔ تاہم نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس کی نوبت کبھی نہیں آئی۔

اب جبکہ این ایل سی سکینڈل کی تحقیقات مکمل کرنے اور ذمہ داریوں کا تعین کرنے کا فرض فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سطح پر اس کارروائی کی کیا صورت بنتی ہے، اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ فوج اس کارروائی کو کس درجہ سنجیدگی سے اُٹھاتی ہے اور مسلح افواج کے ادارے کے لیے بدنامی کا باعث بننے اور منافع بخش اور کامیاب ادارے کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے ان کرداروں کا احتساب ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔

Comments