ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان ایک غیر ذمہ دار تنظیم؟

ٹی آئی پی کے سربراہ ماضی میں اربوں روپے کی کرپشن میں خود ملوث رہے، چیئرمین این آئی سی ایل

منصور مہدی

ملکی وغیر ملکی غیر سرکاری ادارے اکثر و بیشتر ملکی حالات خصوصاً تعلیم، صحت ، امن و امان، گڈ گورننس اور کرپشن کے حوالے سے سروے و خصوصی رپورٹیں شائع کرتے رہتے ہیں۔ ان میں بعض اداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نیک نیتی سے یہ رپورٹیں بناتے ہیں جبکہ بعض ادارے اپنے اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر کچھ باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

اسی طرح کی ایک رپورٹ گذشتہ سال کے آخر میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے کرپٹ ممالک کے حوالے سے جاری کی تھی۔ جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں بے انتہااضافہ ہوا ہے اور 2009ءمیںپاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 42ویں نمبر پر تھا لیکن 2010ءمیں پاکستان 34ویں نمبر پر آگیا۔

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل ایک گلوبل سول سوسائٹی تنظیم ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ پوری دنیا میں بدعنوانی کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ یہ تنظیم1993ءمیں بنائی گئی جس کا مرکزی دفتر بلجیم کے شہر برسلز میں اور مرکزی سیکرٹریٹ جرمنی کے شہر برلن میں ہے۔ جرمنی میں اس تنظیم کے ساتھ 90کے قریب ادارے منسلک ہیں جو ہر سال جرمنی کے مختلف اداروں میں پائی جانے والی بد عنوانی کے بارے رپورٹیں جاری کرتے ہیں جبکہ بین الاقوامی بدعنوانی کے حوالے سے اس تنظیم کے مزید چار شعبے ہیں جن میں ایک ڈیسک افریقہ اور مڈل ایسٹ کے ممالک میں ہونے والی کرپشن اور ایک امریکا ( جن میں لاطینی امریکا کے ممالک بھی شامل ہیں ) ،ایک ایشیا پیسیفک کے ممالک کیلئے اور آخری شعبہ یورپ اور سنٹرل ایشیا کے ممالک پر نظر رکھتا ہے۔

اس تنظیم کی 178کے قریب ممالک میں شاخیں ہیں ۔ ان میں ایک ” ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان“ کے نام سے پاکستان میں کام کرتی ہے۔ پاکستان میں اس تنظیم کی شاخ فروری2001ءمیں بنائی گئی جس کا صدر دفتر کراچی میں ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو مئی 2002ءمیں ٹرسٹ ایکٹ 1882ءکے تحت کراچی میں رجسٹرڈ کرایا گیا جس کے چیئرمین سید عادل گیلانی ہیں اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سعد رشید ہیں جبکہ مشاورتی کمیٹی میں خورشید انور، واجد جواد، شہانہ کوکب، سید سلیم احمد اور عابد شیخ شامل ہیں۔

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی طرف سے 2010ءمیں جب رپورٹ جاری ہوئی تو اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں اسے خاصی جگہ دی گئی۔ اس پر بحث و مباحث کا سلسلہ شروع ہوا تو ایسے لگتا تھا کہ پہلے جیسی رپورٹوں کی طرح اس رپورٹ پر بھی کچھ دن بحث جاری رہے گی اور پھر بات آئی گئی ہو جائے گی۔ مگر اس رپورٹ سے نہ صرف حکومتی ایوانوں ، سیاسی افراد اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں بحث کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے بلکہ یہ بحث ایک لڑائی کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس رپورٹ کو اگرچہ بہت سی جگہوں پر درست قرار دیا گیا اور متعدد کی جانب سے جانبدارانہ رپورٹ کہلائی جبکہ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمین اور تنظیمی ڈھانچے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ ایک سال کے دوران پاکستان کی وفاقی حکومت کے مختلف محکموں میں 300ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمین عادل گیلانی نے اس کرپشن کی بنیادی وجہ ملک میں احتساب کا کوئی موثر طریقہ کار موجود نہ ہونے کو کہا جس کے باعث کرپشن بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آئی پی نے قومی احتساب بیورو(نیب) کو کرپشن کے چند ایک معاملات سے آگاہ کیا تھا لیکن بیورو نے ایک بھی کیس میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کا سب سے بڑا کیس حکومت کی جانب سے شروع کیا جانے والا رینٹل پاور پراجیکٹ ہے جو فی الوقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ کرپشن کی فہرست میں یہ پراجیکٹ سرفہرست ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ رینٹل پاور پراجیکٹس کے تحت حکومت نے کم از کم 14 ٹھیکے دینے میں پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قواعد کی خلاف ورزی کی۔ اس بات کی نشاندہی ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی رپورٹ میں بھی کی گئی تھی اور اس سے 2 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا۔ عادل گیلانی نے کہا کہ ٹی آئی پی نے سپریم کورٹ کو بھی اس معاملے میں ہونے والی کرپشن اور بے ضابطگی سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آئی پی نے پاکستان سٹیل میں ہونے والی کرپشن کے متعلق بھی کئی اداروں کو لکھا۔ پاکستان سٹیل کی جانب سے سامان کے حصول اور فروختگی کی پالیسی کے نتیجے میں 22 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے کرپشن کے اس معاملے کو نظر انداز کردیا تھا لیکن یہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عادل گیلانی نے پاکستان ریلویز کی جانب سے امریکا کے تیار کردہ 150 لوکوموٹوز (انجن) کے حصول کے ٹینڈر میں بھی پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی بھی بات کی۔

اس رپورٹ پر تنقید اور ٹی آئی پی کے چیئر مین کے حوالے سے تحفظات کا سلسلہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے شروع کیا جب انھوں نے ٹیویٹر ڈاٹ کام پر ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے چیئرمین کیخلاف الزام لگایا کہ عادل گیلانی کو کے پی ٹی سے کرپشن کے الزامات کے باعث نکالا گیا تھا لہٰذا جو شخص کرپشن کی بنیاد پر ملازمت سے نکالا جائے اس کی کرپشن کے خلاف رپورٹ غیرجانبدارانہ نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے ٹر انس پیر نسی انٹر نیشنل کو فراڈ قر ار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم ملک کو نقصا ن پہنچا رہی ہے۔ جبکہ جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبدالروف خان ساسولی نے کہا کہ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمین عادل گیلانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا قریبی عزیز ہونے کاتاثر دے کر لوگوں کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی تھی کہ عوام کو ان کی بلیک میلنگ سے بچایا جائے۔ پاکستان سٹیٹ آئل کے ایم ڈی عرفان قریشی نے کہا تھا کہ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کا چیئر مین پی ایس او کو بلیک میل کرتاہے او ر اس کے لگائے جانے والے تمام الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے سامنے ایم ڈی پی ایس او عرفان قریشی نے بتایا تھا کہ عادل گیلانی 1991ءمیںخود کرپشن کا مرتکب رہا ہے اوراس کو وہاں سے نکالا گیاتھا۔ سند ھ اسمبلی کی قا ئم مقا م سپیکر شہلا رضا کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں ٹرانس پیر نسی انٹر نیشنل کے خلا ف ایک مذمتی قرارداد منظورکی گئی جس کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی شرجیل انعام میمن نے پیش کیا تھا۔شرجیل میمن کاکہنا تھا کہ عادل گیلانی جمہوری حکومت کو بدنام کرنے کی ساز شیںکر رہے ہیں۔شازیہ مری نے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان کو کرپشن کے نام پر بدنام کیا جارہا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ کرپشن کو اپنے ملک کی بدنامی کے لیے استعمال کرنا غداری ہے۔رکن اسمبلی رفیق انجینئر کاکہنا تھا کہ جب سے ملک بنا ہے کرپشن موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ خود ساختہ این جی اوز ملک کمزور کرنے کے لیے کام کررہی ہیں۔

عادل گیلانی نے بھی اپنی صفائی اور رپورٹ کی سچائی کے حوالے سے بیانات دیے اور گورنر پنجاب ، رکن سندھ اسمبلی شرجیل انعام میمن اور دیگر کو قانونی نوٹس بھجوائے۔ گورنر پنجاب کو بھجوائے گئے قانونی نوٹس میںعادل گیلانی نے کہا کہ ”مسٹر سلمان تاثیر آپ نے اعلیٰ حکومتی منصب گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے کسی نو عمر لڑکے کی طرح کے رویہ کا اظہار کیا ہے اور 3 جون 2010ءکو ٹیویٹر پر عادل گیلانی کے خلاف بلا جواز ریمارکس دیے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ یہ ریمارکس غلط ہیں۔ اس طرح عادل گیلانی کونہ صرف عوام میں بلکہ ایک بین الاقوامی سائٹ پر بدنام کیا“۔ کسی ایسے شخص سے یہ توقع کبھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر ہو اور اس طرح کی بچگانہ حرکات کرے جو کسی گورنر کو زیب نہ دے“۔ جبکہ شرجیل انعام میمن کو بھیجے گئے قانونی نوٹس میں عادل گیلانی نے کہا ہے کہ وہ سرعام معافی مانگیں یا پھر ان پر 50 کروڑ روپے ہرجانہ کا دعویٰ کیا جائے گا۔ عادل گیلانی کا کہنا ہے کہ انہیں غیر ملکی ایجنٹ بھی کہا جا رہا ہے۔ لیکن یہ لڑائی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب عادل گیلانی نے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کو ایک خط لکھ کر اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ عادل گیلانی نے خط میں لکھا کہ اس رپورٹ کو جاری کرنے کے بعد انھیں قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہے۔ جس پر ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے سربراہ ہیوگیٹ لیسیلی نے صدر آصف علی زرداری اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں۔

اس پر حکومت پاکستان کی ہدایت پر ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کر دیں۔ ٹرانس پیر نسی انٹرنیشنل کے چیئرمین عادل گیلانی پر نہ صرف سیاسی حلقوں اور سرکاری اداروں کی طرف سے الزامات لگائے گئے بلکہ این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز نیازی اور تین ڈائر یکٹرز نے باقاعدہ ان کے خلاف درخواست بھی دائر کی۔ جس میں انھوں نے عادل گیلانی کو نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (این آئی سی ایل) میں کئی ارب روپے کے سکینڈل میں ملوث قرار دیا۔جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب ظفر قریشی نے عادل گیلانی کو21سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ بھیجا اور ساتھ ہی انھیں23دسمبر کو طلب بھی کیا۔ اس سوالنامے کا عادل گیلانی نے جواب داخل کیا بلکہ انوسٹی گیشن آفیسر کو ایک علیحدہ خط بھی بھیجا جس میں انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اِن سوالات کے جوابات کے بعد 23دسمبر کو ایف آئی اے کومجھے بلانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز نیازی نے ایف آئی اے کو ایک بیان میں بتایا تھا کہ انہیں قاسم امین دادا نے مبینہ طور پر یہ پیشکش کی تھی کہ اگر میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے ساتھ ایم او یو سائن کر لوں تو وہ میرے خلاف سپریم کورٹ میں زیر سماعت کرپشن کے مقدمات ختم کرا لیں گے۔ ایف آئی اے کے 21میں سے صرف پانچ سوالات این آئی سی ایل لینڈ سکینڈل کی چھان بین سے مطابقت رکھتے تھے، جبکہ دیگر تمام سوالات ٹرانس پیرنسی کے سربراہ کے ذاتی پس منظر اور ان کی سرگرمیوں اور یہ کہ ٹرانس پیرنسی پاکستان میں کس طرح کام کرتی ہے سے متعلق ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ملنے کے بعد تفتیشی افسر نے کہا کہ عادل گیلانی نے اپنے جوابات میں کئی جگہ متضاد باتیں کی ہیں اور وہ ایک سوال کے جواب میں دیے گئے اپنے موقف پر دوسرے سوال کے جواب میں ہٹ جاتے ہیں۔ لہٰذا اب ایف آئی اے نے انھیں بذات خود10جنوری کو طلب کر لیا ہے۔

عادل گیلانی اور ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کا کہنا ہے کہ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل ایک کھوج لگانے والی ایجنسی ہے اور اس تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔ قانون کے مطابق یہ صرف میڈیا سے بات چیت کر سکتی ہے اور سرکاری داروں سے اطلاعات اکٹھی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سرکاری افسروں سے معلومات کے عوض رشوت دینے پر اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا حکومت نے اپنی سبکی کو ختم کرنے کے لیے عادل گیلانی کے خلاف تحقیقات شروع کی ہیں یا واقعی وہ جانبدارانہ رپورٹیں جاری کرنے کے ذمہ دار ہیں؟





باکس

ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کا کرپشن پری سیپشن انڈیکس مختلف ممالک میں کرپشن کو جانچنے کیلئے دنیا کا سب سے قابل اعتبار پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ کرپشن پری سیپشن انڈیکس کے تحت ممالک کو صفر سے دس تک پوائنٹس دیے جاتے ہیں اورجس ملک کو جتنے زیادہ پوائنٹس ملتے ہیں وہاں کرپشن اتنی ہی کم ہوتی ہے اور جن ممالک کے پوائنٹس کم ہوتے جاتے ہیں وہاں بدعنوانی کی سطح اتنی ہی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔کرپشن پری سیپشن انڈیکس کے ذریعے دنیا کے178 ممالک کی درجہ بندی کی گئی۔ ان میں سے تین چوتھائی ممالک نے صفر سے پانچ تک پوائنٹس حاصل کیے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرپشن بدستور ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان 2.3 پوائنٹس کے ساتھ34 ویں نمبر ہے جبکہ گزشتہ سال پاکستان کا نمبر42 واں تھا۔ فہرست میں پاکستان کے آٹھ درجے نیچے آنے کا مطلب ہے کہ یہاں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی نسبت بھارت بدعنوان ممالک کی فہرست میں90 نمبر پر ہے۔ صومالیہ دنیا کا بدعنوان ترین ملک ہے جبکہ افغانستان اور میانمارمشترکہ طور پر دوسرے نمبر پر ہیں۔رپورٹ کے مطابق عراق کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔اگر دنیا کے سب سے کم بدعنوان ممالک کی بات کی جائے تو ڈنمارک ، نیوزی لینڈ اور سنگاپور9.3 پوائنٹس کے ساتھ مشترکہ طو رپر دنیا کے سب سے کم بدعنوان ملک ہیں جبکہ فن لینڈ اور سویڈن مشترکہ طورپر دوسرے اور کینیڈا تیسرے نمبر پر ہے۔

Comments