اسٹیبلشمنٹ سے میڈیا کا تعلق اب اور زیادہ مضبوط ہو گا

صنعتی کاروباری اشرافیہ اور جاگیردار آپس میں گھل مل گئے ہیں

ایسے سیکولر ازم پر بات کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد ہماری اپنی تہذیبی تاریخ پر ہو

عائشہ صدیقہ سے انٹرویو

انٹرویو پینل: عامر حسینی، علی ارقم

عائشہ صدیقہ پاکستان کے اہم اخبارات میں باقاعدہ سے مضامین لکھتی ہیں۔ انہوں نے کنگز کالج لندن سے1996ءمیںپی ایچ ڈی کی۔ وہ ملٹری ٹیکنالوجی، دفاعی شعبے میں فیصلہ سازی، ایٹمی ہتھیاروں، اسلحے کی خریداری، اسلحے کی پیداوار سے لے کر جنوبی ایشیا میں سول، ملٹری تعلقات جیسے موضوع پر کام کر چکی ہیں۔ وہ دو کتابیں تحریر کر چکی ہیں۔ انہوں نے ڈیفنس سروسز میں ڈپٹی ڈائریکٹر آڈٹ کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ حال ہی میں ان کو بعض گمنام کالوں کے ذریعے ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ ان کا یہ انٹرویو بہت سے انکشافات کرتا ہے۔



ہم شہری: اپنے پس منظر بارے ہمیں کچھ بتائیے۔ یہ بھی بتائیے گا کہ آپ کس وجہ سے سول سروس میں گئیں اور پھر کیوں اس سروس کو چھوڑ دیا؟

عائشہ صدیقہ: میں لاہور میں پیدا ہوئی اور وہیں پر پلی بڑھی۔ اگرچہ میرے خاندان کا تعلق بہاولپور سے ہے جس سے میرا بھی بہت تعلق ہے لیکن میرا دل لاہوری (لہوری) ہے۔ میں نے 1988ءمیں سول سروس ذاتی وجوہ کی بنا پر جوائن کی تھی۔

1979ءمیں میرے والد فوت ہو گئے تھے اور میں بچپن میں ہی اپنی والدہ کے ساتھ وراثت کے معاملات سے نمٹنے میں تنہا رہ گئی تھی۔ جب میں نے کنیئرڈ کالج لاہور سے بی اے کیا تو میری والدہ جو کہ ناول نگار بھی ہیں، جمیلہ ہاشمی، انہوں نے مجھے سی ایس ایس کرنے کا مشورہ دیا۔ جب انہوں نے میری طرف سے اس تجویز کی مخالفت ہوتے دیکھی تو ایک دن انہوں نے مجھے بتایا کہ دیکھو بیٹا تمہارے ساتھ تو والد ہیں نہ چچا اور نہ ہی کوئی بھائی جو تمہاری مدد کرے، اپنی بقا کے لیے تمہیں خود اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔ قدموں پر کھڑے ہونے کا مطلب اس ملک میں روابط بنانا ہے۔ تو یا تو تمہیں لکھاری بن کر نام کمانا چاہیے(اس سے مراد فکشن رائٹر تھا) یا پھر سول سروس میں شامل ہو جاؤ۔

ایک طرح سے یہ اچھا فیصلہ تھا کیونکہ میں نے اکتوبر 1978ءمیں سی ایس ایس کا تحریری امتحان دے دیا تھا جبکہ میری والدہ جنوری 1988ءمیں جب اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو مجھے اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے چھوڑ کر گئیں۔ مجھے سمجھ آ گیا تھا کہ بطور سول سروس کارکن ہونے کے دنیا آپ کے لےے کس قدر مختلف ہوتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر بہاولپور جو کہ ایک پکا ڈی ایم جی (ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ) افسر تھا اور بھورے صاحب کے ساتھ ایک قسم کے مہربان روپ کے ساتھ پیش آتا ہے، اس نے میرے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کر لیا۔ اب میں طبقہ عوام سے نہ تھی بلکہ حکمران طبقے کا حصہ تھی۔ یقین کیجیے حکمران طبقے سے ہونے کے فیوڈل، بیورو کریٹک ماحول میں بہت معنی ہوتے ہیں۔

میں آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروسز میں تھی اور یہاں میں نے مختلف عہدوں پر کام کیا۔ اسی دوران میں وار سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کرنے کنگز کالج لندن گئی۔ میں 1996ءمیں لوٹی، پھر سول سروس میں شامل ہو گئی اور وہاں2000ءتک رہی۔ اپنے استعفیٰ سے پہلے میں نے ایک سال پاکستان بحریہ میں بھی کام کیا۔ نصف سال میں نے ڈائریکٹر آف نیول ریسرچ کے طور پر کام کیا۔ سول سروس میں نے جن اسباب کی بنا پر جوائن کی تھی اب وہ نہیں رہے تھے اور اب میں نے اپنا اکیڈمک مستقبل بنانے کی طرف توجہ کی۔ مجھے اپنے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ سول سروس میں بیورو کریٹک کیرئیر میرے لیے مناسب نہیں تھا۔

ہم شہری: آپ کے تحقیقی طریقہ کار میں اس تجربے نے کس قدر مدد کی جو آپ کو بطور ڈائریکٹر آف نیول ریسرچ ہوا؟ جیسا کہ بعض کا خیال ہے کہ اسی تجربے کی وجہ سے آپ نے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی معیشت کا ٹھوس تجزیہ کیا۔

عائشہ صدیقہ: نیوی میں میرا تجربہ بہت دلچسپ رہا۔ اصل میں سی این ایس جو کہ اس وقت ایڈمرل فصیح بخاری تھے ان کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کہ انہیں اپنے لیے کام کرنے والا ایک سویلین رکھنا چاہیے۔ وہ اس طرح سے نیوی میں ایک تبدیلی لانا چاہتے تھے لیکن کسی بھی قسم کی تبدیلی کی مخالف قوتوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ لیکن یہ بہت دلچسپ تھا۔ نیول افسروں کی اکثریت سسٹم کو اوپن کرنے اور اس میں ناگزیر تبدیلیاں لانے کی مخالف تھیں۔ تقریباً ڈیڑھ سال یہ کام کرنے کا تجربہ میرے حساب سے بہت دلچسپ تھا۔ اس نے مجھے اس حقیقت سے دوچار کیا کہ سویلین اور ملٹری پرسانل دو مختلف انواع ہیں اور سب سے بڑا گناہ اس ملک میں (ملٹری کی نظر میں) بحث و مباحثے کرنے والا سویلین ہونا ہے۔ جہاں تک نیول ہیڈ کوارٹر بارے میری تحقیق ہے اس نے صرف میرے کام کی تصدیق میں مدد کی اور میں نے اپنی معلومات کا بہت کم حصہ اس سے حاصل کیا۔

ہم شہری: کامران شفیع جب ”ڈیپ سٹیٹ“ کی بات کرتے ہیں اور اس بارے اپنا فہم بیان کرتے ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ اس سے مراد خفیہ سروسز، آرمی اور سول نوکر شاہی کا اتحاد ہے اور سول نوکر شاہی اوّل الذکر دونوں کے ماتحت ہے۔ اس اصطلاح بارے آپ کے اندازے کیا ہیں؟

عائشہ صدیقہ: ڈیپ سٹیٹ کے اور نام بھی ہیں۔ بعض اوقات لوگ اسے اسٹیبلشمنٹ بھی کہتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کے ممبران دو طرز کے ہیں۔ ایک پرائمری کردار ہیں اور دوسرے ثانوی کردار۔ وردی، بے وردی نوکر شاہی اس کے بنیادی ناگزیر کردار ہیں جبکہ ثانوی کردار کے حامل عدلیہ، بزنس اور صنعتی اشرافیہ کے لوگ ہیں۔ ان میں مذہبی اشرافیہ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ ثانوی کردار پرائمری کرداروں سے اپنے تعلقات کی بنا پر کم یا زیادہ اہم ہوتے رہتے ہیں۔

یہ لوگ اپنے مشترکہ مفاد کی وجہ سے باہم جڑے رہتے ہیں اور یہ مشترکہ مفاد ہے کہ ترقی پذیر ریاست کے اندر سماجی، سیاسی طور پر آخری طاقت ان کے پاس رہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے کبھی اپنی طاقت کو نہیں گنوایا، حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے انتخاب کے دور میں بھی۔ وہ بھی اقتدار سے اس وقت باہر کر دیے گئے جب ان کا تعلق اسٹیبلشمنٹ سے ٹوٹ گیا تھا۔ تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان اتنی ہی ڈیپ سٹیٹ ہے جتنا کوئی تصور کر سکتا ہے۔

ہم شہری: وکی لیکس کے نام پر ہمارے خود سے ”آزاد میڈیا“ کے منصب پر فائز میڈیا نے جو خود ساختہ جعلی لیکس چلائیں اس پر اسے بڑی خفت اٹھانا پڑی ہے۔ تو کس حد تک ہمارا میڈیا، صرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں بلکہ بلاگرز بھی، ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں؟

عائشہ صدیقہ: میڈیا ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جڑا رہا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ پہلے جو اخبارات تھے وہ ریاست کی مدد سے مضبوط ہوئے تھے۔ پھر بعض اخبارات نے بائیں بازو کی ٹون اپنائی کیونکہ ریاست خود کو ذرا مختلف رنگ میں پیش کر رہی تھی۔ لیکن حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے میڈیا کا تعلق بہت پرانا ہے۔ یہ تعلق اب اور زیادہ مضبوط ہو چکا ہے اور اس کی وجہ نیشنلسٹ ایجنڈا کا عام فہم ہونا ہے۔ میڈیا کے جو نئے ارکان ہیں وہ ابھی کم تربیت یافتہ ہیں اور بہت متکبر بھی۔ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ کیسے اسٹیبلشمنٹ انہیں استعمال کر لیتی ہے۔ میں اس بات پر مصر ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر سے ہمدردی رکھنا اور اس کا ایجنٹ ہو جانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ جھوٹی وکی لیکس ریاست پر میڈیا کے غیر صحت مندانہ انحصار کا محض ایک عکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انفارمیشن مرکزی سطح پر کنٹرولڈ ہے۔ بہت سے ایسے صحافی حتیٰ کہ سینئر صحافی بھی موجود ہیں جو معلومات تک رسائی کے لیے خوشی خوشی ایسی شراکت میں شریک ہو جاتے ہیں۔

یہاں پر غلطی اور قصور میڈیا مالکان کا بھی ہے جو ہیومن ریسورسز پر زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرتے چنانچہ صحافیوں کے پاس بھی سوائے اس کے اور کوئی راہ نہیں ہوتی کہ کوئی ایجنسی والا ان کو اہم کہانیاں دے۔ یہ قدرے پیچیدہ تعلق ہے۔ جب ایجنسیوں کے تنخواہ دار صحافی سرکشی کرتے ہیں تو انہیں سزا بھی دی جاتی ہے۔

ہم شہری: جب حامد میر / خواجہ ٹیپ سٹوری سامنے آئی تو بہت کم لوگوں نے اس پر توجہ دی۔ اس میں آپ بھی شامل تھیں۔ اس سٹوری کو جس طرح سے دفن کر دیا گیا اس سے اندازہ نہیں ہوتا کہ ہمارے میڈیا میں اخلاقیات کی سخت کمی ہے؟

عائشہ صدیقہ: حامد میر تو ایکسپوز ہو گیا لیکن اور بہت سے ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔ وہ معلومات کو ڈیپ سٹیٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ معتبر اخبارات جیسے ڈان ہے وہ بھی پلانٹ کردہ سٹوریز صفحہ اوّل پر شائع کرتے ہیں۔ حال ہی میں میرا نام تحریک طالبان پاکستان کی ہٹ لسٹ میں ظاہر کر دیا گیا۔ یہ سٹوری اخبارات میں اس وقت شائع ہوئی جب ایک ایجنسی کے ہرکاروں نے میڈیا کے دفاتر کے دورے کیے۔ یہ وہی ایجنسی ہے جو مجھے بھی پریشان کرنے کے لیے عجیب و غریب کہانیاں سناتی رہی ہے۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ میں ملک چھوڑ جاؤں۔

میرا کہنا یہ ہے کہ میڈیا ہو سکتا ہے آج زیادہ ذرائع رکھتا ہو لیکن اس میں آزاد روح کی کمی ہے۔ یہ1980ءکے میڈیا سے کم ہمت رکھتا ہے جو کہ اس وقت بہت سی عملی رکاوٹوں کا شکار تھا، اس کے راستے میں کئی جسمانی رکاٹیں حائل تھیں لیکن وہ سوچنے میں آزاد تھا۔

ہم شہری: ہماری ”شہری کلاس“ کے اکثر تجزیہ نگار لفظ فیوڈل پر حد سے زیادہ زور دیتے ہیں اور ایسا نظر آتا ہے کہ اس لفظ کو ”دیہی پاکستان“ کی تفہیم کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں بعض سیاستدانوں کو نیچا دکھانے کا جذبہ بھی کارفرما ہے۔ ایک طرف تو جاگیردار اشرافیہ کی ملکیتی جاگیریں کم ہو رہی ہیں تو دوسری طرف شہری سیاسی جماعتیں اپنے لینڈ مافیا گروپ مضبوط بنا رہی ہیں اور ہر مرتبہ بحث میں فوج کے رئیل اسٹیٹ بزنس اور جاگیروں کو خارج کر دیا جاتا ہے۔ تو کیا یہ کہنا ٹھیک ہو گا کہ اربن کلاس کا فیوڈل ازم کا جو فہم ہے اسے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے؟

عائشہ صدیقہ: فیوڈل ازم کی اصطلاح تو اب فیشن بن گئی ہے۔ میرے خیال میں یہ موجود ہے لیکن الگ شکل میں۔ حقیقت یہ ہے کہ جاگیرداری نظام اب دوسری شکل میں ڈھل چکا ہے۔ کارل مارکس نے تو اسے ”طریق پیداوار“ تصور کیا تھا۔ تو اس تناظر میں تو جاگیرداری کی شکل بدل چکی ہے۔ اکبر زیدی کی تجزیاتی تحقیق بتاتی ہے کہ بہت بڑی تعداد میں بڑی جاگیریں کم ہو گئی ہیں۔ میرے خیال میں صنعتی کاروباری اشرافیہ اور جاگیردار آپس میں گھل مل گئے ہیں۔ وہ زمین کو سیاسی سرمایہ کے طور پر مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے (ریاست اور دوسری جگہوں سے) استعمال کرتے ہیں۔ جو چیز مسئلہ بنی ہوئی ہے وہ رویہ ہے۔ مارکس نے تو کبھی اس اصطلاح کے سیاسی اور ثقافتی معنی بیان نہیں کیے تھے۔ ہماری جو ریاستی نوکر شاہی ہے وہ بھی فیوڈل ہے، حتیٰ کہ ہمارے جو اربن پروفیشنل ہیں ان کے بھی فیوڈل رویے ہیں۔

ہم شہری: ہماری اربن کلاس کیوں چھوٹے قومیتی گروہوں کو کسی حد تک نظر انداز کرتی ہے؟

عائشہ صدیقہ: اس طبقے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ شیطان اور گہرے نیلے سمندر کے درمیان کہیں پھنسا ہوا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ انہیں کبھی چھوٹے ذیلے قومی گروہوں کا خیال بھی آیا ہو گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی حرکت کا سبب بین الاقوامی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا احساس ہے۔ ان کے نزدیک اگر پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر بُرا امیج نہ ہو تو چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ ان میں ذیلی قومی گروہوں کے تناؤ بارے سوچنے کا یارا نہیں ہے۔ دراصل اس قسم کی سوچ کے پیچھے ہمارے معاشرے میں ترقی کی ناہمواری کارفرما ہے۔ وہ جو آگے جا چکے وہ پیچھے رہ جانے والوں کی طرف دیکھنا نہیں چاہتے اور وہ اسے اپنا قصور بھی نہیں مانتے۔ ایسی سوچ سارے جنوبی ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستانی مڈل اور اپر کلاس بھی ذیلی قومی تحریکوں کے بارے میں ایسے ہی بولتی ہیں۔

ہم شہری: کیا ہماری ’ڈیپ سٹیٹ‘ جہادی، فرقہ وارانہ ملیشیاؤں کو خارجہ اور مقامی پالیسی میں استعمال کرنے کی غلطی تسلیم کر چکی ہے اور تزویراتی گہرائی کے فلسفے کو دفن کر چکی ہے؟

عائشہ صدیقہ: نہیں۔ دراصل ہم کبھی بھی اقتصادی، سماجی یا ثقافتی مسابقت کی اصطلاحوں میں نہیں سوچتے بلکہ ہمیشہ ملٹری، سٹریٹیجک طاقت کی اصطلاحوں میں مقابلے کی سوچتے ہیں۔

ہم شہری: نوجوانوں کو انتہا پسند راستوں کا مسافر بننے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

عائشہ صدیقہ: ہمیں اپنی نئی نسل کو بچانے کے لیے نیا راستہ اپنانا ہو گا۔ یہ راستہ مغربی لبرل ازم پر انحصار کرنے والا نہ ہو بلکہ ہمیں ہمارے اپنے تہذیبی لبرل ازم کے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔ بدقسمتی سے ہماری تعلیم یافتہ اشرافیہ جب اپنے مذہب اور کلچر سے سامنا کرتی ہے تو یہ لبرل طرز فکر کے الٹ مظاہرہ کرتی ہے۔ ہمیں ایسے سیکولر ازم پر بات کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد ہماری اپنی تہذیبی تاریخ پر ہو۔

Comments