تاریخ کا ہیرو

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم ِولادت پر خصوصی مضمون

اکبر ایس احمد

نومبر1995ءمیں نشر ہونے والے شہزادی ڈیانا کے انٹرویو نے کچھ ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو میرے موضوع سے متعلق ہیں۔ ہم نے اپنے عہد کی اس افسانوی شخصیت کا اندازہ لگایا جسے بے جا مداخلت کرنے والا بے ادب میڈیا گھیرے ہوئے ہے۔ مختلف ثقافتی اور سیاسی تناظر میں پیدا ہونے والی کہانیوں سے تشکیل پانے والے حقائق میں اصل ڈیانا کون سی ہے؟ بری بیوی، چالاک سازشی یا 1990ءکی دہائی کی عظیم خاتون یا انگریز شہنشاہیت کو تباہ کرنے والی عورت؟ تو پھر کیا ہیرو شخصیات اب محض ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔ محض کارلائل کے زمانہ کی یادگار؟

ہم ان سوالات کا تجزیہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے تجزیہ سے کریں گے۔ جناح کو ہیرو قرار دیا جاسکتا ہے اگر اس اصطلاح کی تعریف ان معنوں میں کی جائے کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کے دل ودماغ اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حامل تھے، جنہوں نے تقریباً ناممکن کام کر دکھایا (ایک قومی ریاست کی تشکیل) اور (انگریزوں، ہندووں اور سکھوں کی) ایک بہت سنجیدہ اور بڑی مخالفت کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کی۔

اسلام نے برصغیر کے مسلمانوں کو شناخت کا احساس دیا۔ مغلوں اور دوسرے شاہی خاندانوں نے انہیں زمینیں دیں اور علامہ اقبال جیسے شاعروں نے ان میں اپنی منزل کا تصور اجاگر کیا۔ جناح کی شخصیت کی عظمت اس حقیقت سے سامنے آتی ہے کہ تحریک پاکستان کی رہنمائی اور پاکستان کی تخلیق کے دوران انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ تینوں چیزیں دیں۔

یہ کہانی برصغیر کے مسلمانوں کے عروج کے بعد مکاری اور فریب کاری کے ذریعے ان کے درجہ بدرجہ زوال حتیٰ کہ1857ءکے حتمی انجام سے شروع ہوتی ہے۔ اس سال مسلمانوں نے اپنی گزشتہ عظیم سلطنت کی آخری یادگار بھی گنوادی۔ جب ایک دہائی کے بعد ہنٹر نے مسلمانوں کے متعلق لکھا تو اس سے بہت پہلے انہیں اپنے مستقبل کے متعلق خطرات کا احساس ہوگیا تھا۔ اگلی صدی کے دوران یہ احساسات بڑھتے رہے۔ بنگال کی تقسیم کے کچھ سالوں بعد ہی 1911ءمیں بنگالی مسلمانوں سے ان کا صوبہ چھین لیا گیا اور1964ءمیں اسلام کی سیاسی قوت کا استعارہ سلطنت عثمانیہ بھی ختم ہو گئی۔

گاندھی کے منظر عام پر آنے اور اس کی بدولت ہندو برادری کو تحفظ اور اعتماد کا احساس ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں مزید بے چینی پیداہوئی۔ راشٹریہ سیوک سنگ اور دوسری ہندو انتہا پسند جماعتیں1920ءکی دہائی میں قائم ہونا شروع ہوئیں اور ایک تسلسل کے ساتھ منظم فرقہ وارانہ تشدد کا آغاز ہوگیا۔1930ءکی دہائی میں ایک ہندو نظریہ ساز گولواکر اس بات کا پرچار کررہا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جائز ہے جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا۔ مسلم لیگ کی تحقیق پیر پور رپورٹ کی صورت میں متشکل ہوئی جس میں سنگین نوعیت کے الزامات کی ایک طویل فہرست تھی۔ اس مایوسی کے عالم میں مسلمانوں نے کسی ہیرو شخصیت کی تلاش شروع کردی۔

30ءاور40ءکی دہائیوں میں جناح کی تحریک نے مسلمانوں کے زوال کو روکا اور اسے ناقابلِ تردیدفتح میں تبدیل کردیا اور پاکستان کی تخلیق کی جو اس وقت دنیا کی دوسری بڑی اسلامی مملکت تھی۔ جناح جدید صلاح الدین ایوبی بن گیا، اگرچہ یہ صلاح الدین شاہی انگریزی بولتا تھا اور انگریزی لباس کا شوقین تھا جس کا ذوق اسے لنکن ان میں قیام کے دوران پیدا ہوا تھا۔ ماضی کے مسلم ہیرو یا تو حکمران تھے یا جاگیردار یا جہاد کی بات کرنے والے مولوی تھے یا صوفی۔ جناح کا تعلق ان میں سے کسی کے ساتھ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ کئی لوگوں کی نظروں میں جناح بہت زیادہ مغربیت زدہ تھے۔ بہت زیادہ قانون پسند تھے اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے ضرورت سے زیادہ علمبردار تھے۔ ان حقائق کے تناظر میں جناح کا معروف لیڈر بننا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔

اس کے باوجود جناح کی شخصیت برصغیر کے مسلمانوں کے رگ وپے میں سرایت کر گئی جس نے ان کے اندر جوش وولولہ پیدا کیا اور عوام ان کی پرستش کرنے لگے۔” وہ ایک خدا کی طرح تھے۔ اگرچہ ہم مسلمان انہیں خدا نہیں کہہ سکتے۔ وہ ہماری نجات تھے“۔ یہ الفاظ سر عبداللہ ہارون کی بیٹی زینت کے تھے جب انہوں نے1940ءمیں قائداعظم کو پہلی مرتبہ دیکھا۔ یحییٰ بختیار نے1943ءمیں قائداعظم کی ایک تصویر اتاری جس میں وہ مسلم احساس تفاخر کی تجسیم نظر آتے تھے۔ یحییٰ بختیار، جو اب سینیٹر ہیں، ان احساسات کو یاد کرتے ہیں جو قائداعظم کو پہلی مرتبہ دیکھتے ہوئے ان کے دل میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ٹرک کی چھت پر بیٹھے تھے اور ہزاروں پر جوش لوگوں نے انہیں گھیررکھا تھا۔

ایسا لگتا تھا کہ وہ دہلی کے فاتح ہیں“۔

پاکستانیوں نے قائداعظم کی شخصیت کو افسانوی ہیرو کا درجہ دیا۔ لیکن پاکستان کے باہر ہندووں اور انگریزوں کے زیر قبضہ ذرائع ابلاغ نے انہیں انگریز راج کے آخری سالوں میں ہونے والے سیاسی ڈرامے کا ولن قرار دیا۔ دلائل یہ ہیں کہ جناح پاکستان کا مطالبہ کرتے تھے کیونکہ وہ ”خبطی“،”جنونی“،”مغرور“ اور”خبطِ عظمت“ کا شکار تھے۔( ان میں سے کچھ الفاظ ماونٹ بیٹن اور نہرو نے استعمال کیے ہیں) یہاں تک کہ ماونٹ بیٹن نے قائداعظم کے بارے میں انگریزی حروف” بی“ سے شروع ہونے والا نہایت ہی نازیبا لفظ استعمال کیا۔ مسلم جدوجہد کو فرد واحد کے تناظر میں دیکھنے اور جناح کی تذلیل کرنے کے رویہ نے ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کے احساسات کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے۔

ماونٹ بیٹن کے خیالات کو، جو پہلے وائسرائے تھے اور جنہوں نے میڈیا کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے ایک کندہتھیار کے طور پر استعمال کیا، کئی ابلاغی اداروں نے مشتہر کیا جن میں بی بی سی کی ٹی وی سیریل خاص طور پر قابل ذکر ہے جو ان کی زندگی پر بنائی گئی تھی۔ ایسی کتابیں شائع کی گئیں جن کے عنوانات میں ماونٹ بیٹن کے لیے تقدیس تھی مثلاً کیمپ بیل۔

جانسن کی” ماونٹ بیٹن کا مشن“(1953ئ) ماونٹ بیٹن کی فلم دیکھتے ہوئے تکلیف دہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے کان کچھ اور سن رہے ہیں اور آنکھیں کچھ اور دیکھ رہی ہیں۔ پہلی مرتبہ جب قائداعظم کو ماونٹ بیٹن اور ان کی اہلیہ سے ملاقات کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے تو قہقہے اور ہنسی مذاق واضح نظر آتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جناح نے گھر واپس آکر ماونٹ بیٹن کے متعلق بہت گرم جوشی سے گفتگو کی لیکن ماونٹ بیٹن کی رائے تھی” میرے خدایا! بہت سرد مہر آدمی تھا“۔

سررچرڈ ایٹن بورو کی فلم ”گاندھی“ سیدھے سیدھے ماونٹ بیٹن کے تعصبات کی توثیق کر دیتی ہے۔ یہ ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ اس فلم کو نہرو اور ماونٹ بیٹن کی نام موسوم کیا گیا اور اس کی تشکیل میں اس وقت کی بھارت کی وزیراعظم اور نہرو کی صاحب زادی اندرا گاندھی نے بہت ماونت کی تھی۔” گاندھی“ میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اس فلم کو دیکھ کر لاکھوں لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا ہو کہ قائداعظم محمد علی جناح بدخُو اور مفسد تھے۔ المیہ یہ ہے کہ کئی نوجوان پاکستانی خاص طور پر برطانیہ میں رہنے والے قائداعظم کو اسی فلم سے جانتے ہیں۔ اس عالم میں ذرائع ابلاغ کی حقائق کو مسخ کرنے کی طاقت اور اپنے ہیرو سے نوجوانوں کی عمومی لاعلمی ثابت ہوجاتی ہے۔

ماونٹ بیٹن کا یہ لائحہ عمل بہت مشکل تھا کہ ہندوستان کو متحد رکھا جائے اور اقتدار پر امن طور پر ہندوستانیوں کے حوالے کردیا جائے۔ لیکن ہندوستان میں اپنی آمد کے بعدانہوں نے غیر جانبداری کو ترک کر کے اس مقصد کو اور زیادہ مشکل بنا لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا منصوبہ” پاگل پن“ تھا، اگرچہ اسے ہندوستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل تھی۔ جناح نے درست طور پر ماونٹ بیٹن کی درخواست رد کی کہ تقسیم کے بعد اسے پاکستان اور بھارت کا مشترکہ گورنر جنرل بنا دیا جائے۔ ماونٹ بیٹن نے قائداعظم سے پوچھا تھا ”کیا تمہیں احساس ہے کہ تمہیں اس کی کیا قیمت چکانا پڑے گی؟“۔ جناح کا جواب تھا ”کئی کروڑ روپے“ پھر ماونٹ بیٹن نے کہا” یہ تمہیں تمہارے تمام اثاثوں اور پاکستان کے مستقبل سے محروم کرسکتی ہے؟“ یہ واضح ہے کہ اگر جناح پہلا پاکستانی تھا تو ماونٹ بیٹن پہلا پاکستان مخالف تھا۔

ماونٹ بیٹن اور محمد علی جناح کے مابین ہونے والے اعلیٰ سطح کے خفیہ اجلاسوں کے نوٹس ہمیں ان دونوں کرداروں اور ان کے مقاصد سے متعلق ان کی حکمت عملی کے بارے میں بتاتے ہیں۔ قائد اعظم ہر صورت میں پاکستان چاہتے تھے اور کوئی بھی چیز انہیں اس سے نہیں روک سکتی تھی۔ ماؤنٹ بیٹن کی ہر سنہری پیشکش کو انہوں نے دھتکار دیا۔ ہر دلیل اور دھمکی کی مزاحمت کی۔ ماؤنٹ بیٹن محمد علی جناح کے دو اہم صوبوں پنجاب اور بنگال کو آدھا آدھا کاٹ دے گا، ماؤنٹ بیٹن جناح کو فوج نہیں دے گا، ماؤنٹ بیٹن نے محمد علی جناح کو متحدہ انڈیا کی وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی۔ ہر لالچ اور دلیل کی ناکامی نے بالآخر ماؤنٹ بیٹن کو مشتعل کر دیا۔ جناح کو لنگڑا لولا اور تباہ حال پاکستان قبول کرنا تھا یا پھر ماؤنٹ بیٹن، انہیں کسی بھی طرح کی کوئی پیشکش کیے بغیر اقتدار کانگریس کو منتقل کر کے انڈیا کو چھوڑ جانا تھا۔ یہ بات ناپختہ تھی لیکن وقت قائد کے ہاتھ سے تیزی سے نکل رہا تھا اس لیے قائد کے پاس ایک ہی انتخاب تھا جیسا کہ محمد علی جناح نے کہا کہ ”کرم خوردہ“ اور ”کٹا پھٹا“ پاکستان یا پھر کچھ بھی نہیں۔ صاف ظاہر ہے قائد اعظم کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا جو انہوں نے اپنایا۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن کی صرف ایک ہی حکمت عملی تھی کہ وہ ہر طرح پاکستان کے حقیقی تصور کو صوبائی (پنجاب اور بنگال)، ضلعی (گوردارسپور اور فیروز پور)، ریاستی (کشمیر) کی سطح پر قتل کر دیتے۔

ماؤنٹ بیٹن نے پنجاب سے برطانوی افواج کو وعدہ کرنے کے باوجود وہاں سے ہٹا لیا جس کی وجہ سے وہاں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے، نتیجتاً 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے (ماؤنٹ بیٹن نے ایک طویل عرصے تک ان اعداد و شمار کو چھپائے رکھا)۔ بالآخر ابتدا ہی میں اثاثوں کی تقسیم میں پاکستان کے حصہ کو دبا لیا گیا۔ گاندھی کے احتجاجاً مرن بھرت رکھنے پر کچھ حصہ پاکستان کو دیا گیا۔

اگر مورخین نے جناح کی ذات کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے تو یہ بھی درست ہے کہ انہوں نے ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن (ماؤنٹ بیٹن کی بیوی) اور نہرو کے درمیان عشق و محبت کے معاملات کی بھی پردہ پوشی کی ہے۔ اب شائع ہونے والے خطوط، تصاویر ان دونوں کے مابین گہری دوستی اور پُرلطف تعلقات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اعلیٰ سطحوں پر زنا کاری جیسے معاملات پر مسحور ہونے کے بجائے، جیسا کہ پینوراما پروگرام کا مرکزی نقطہ تھا، ہمیں پٹڑی سے نہیں اترنا چاہیے۔ ہمیں صرف اس رومانوی تعلق سے تقسیم کی سیاست پر رونما ہونے والے اثرات میں دلچسپی ہے جس سے جناح اور اس کا پاکستان کئی طرح سے متاثر ہوا۔

کیا نہرو نے ایڈوینا کو دیوانہ نہیں کر دیا تھا، وہ اس قابل نہیں تھا کہ جناح کے بارے میں اسے مکمل طور پر قائل کر سکے، وہ اس قابل بھی نہیں ہو گاکہ مستقبل کی ریاستوں، پاکستان اور انڈیا، کے بارے میں تقسیم کے منصوبے اور اہم معلومات حاصل کر کے اور فرمانبردار وائسرائے کے فیصلوں پر اثر انداز نہ ہو سکے۔

خفیہ طور پر مستقبل کی ریاستوں کی حد بندی کو دیکھنے کے بعد جب نہرو نے انہیں تبدیل کرنے پر اصرار کیا تھا تو ماؤنٹ بیٹن نے اس کا دوبارہ خاکہ کھینچا تھا۔ نہرو نے جب شمال مغربی سرحدی صوبہ کے گورنر سر اولف کارو کے بارے میں شکایت کی تو ماؤنٹ بیٹن اسے برخاست کرنے پر فوراً تیار ہو گیا۔

ایڈوینا نے بہت موثر انداز میں عوامی سطح پر نہرو اور اس کے مقصد کے لیے مہم چلائی۔ ایک طاقتور اور امیر عورت ایڈوینا نہ صرف اپنے شوہر پر اثر انداز ہوئی بلکہ اس نے لندن کی اہم شخصیات کو بھی اپنا ہمنوا بنایا۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ ایڈوینا کا دورہ کشمیر واضح طور پر نہرو کی حمایت میں ایک سیاسی بیان تھا، اس معاملہ کا برطانوی ذرائع ابلاغ نے خوب چرچا کیا۔ یہ ایک غیر معمولی اور بہت اہم بات تھی کیونکہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی بھی مقامی باشندے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی اعلیٰ نسب خاندان سے ہو، کی رسائی وائسرائے کے گھر تک نہیں ہوتی تھی جبکہ نہرو ایک ایسے شخص کی شکل میں نمودار ہوا جو وائسرائے کے دفتر کو اس کے بیڈ روم سے کنٹرول کرتا تھا۔

برطانوی مورخوں نے عمومی طور پر اس معاشقے کو یا تو نظرانداز کر دیا یا اسے دھندلا دیا۔ یہاں تک کہ فلپ زیگلر نے 1985ءمیں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی 800 صفحات پر مشتمل جو ”سرکاری سوانح حیات“ لکھی اس میں بھی مصنف نے ان کی دوستی کو جلد بازی میں صرف چند پیرا گرافوں میں بیان کیا جن میں صرف اس کی خوبصورتی پر زور دیا گیا۔ بایں ہمہ ماؤنٹ بیٹن کا تعلق شاہی خاندان سے تھا اور اس کے بھتیجے نے ملکہ سے شادی کی تھی۔ ماؤنٹ بیٹن ایک شاندار جنگی ہیرو بھی تھا۔ ایسی صورت حال میں آج بھی ایک کنٹرولڈ میڈیا اور دوستانہ دیومالا حقیقت کی صورت گری کرتے ہیں۔

ابتدائی دہائیوں میں بھارت کے اندر بھی نہرو کے لیے عزت کی وجہ سے وہاں خاموشی طاری رہی۔ بھارت کے صدر رادھا کرشنا کے بیٹے سروپالی گوپال کی کتاب کی تین بڑی جلدیں، جن میں نہرو کا مطالعہ کیا گیا ہے، میں بھی نہرو اور ایڈوینا کے تعلقات سے صرف نظر کیا گیا ہے، لیکن یہاں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ پاکستانی سکالر ماؤنٹ بیٹن سے اس قدر تعلق کو دریافت کرنے اور اس کے تقسیم کے عمل پر رونما ہونے والے اثرات کو منظر عام پر لانے میں کیوں ناکام رہے۔ شریف المجاہد کی کراچی سے شائع ہونے والی 800صفحات پر مشتمل اتھارٹیٹیو سٹڈی آف جناح میں ایڈوینا کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔

مورخین ہمارے سامنے ماؤنٹ بیٹن کی مکمل تصویر پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جناح کے بارے میں ماؤنٹ بیٹن کا برطانوی موقف وسیع طور پر قبول کیا گیا اور جب دوسری نسل نے اس پر تبصرہ شروع کیا تو اس موقف کو ان کی صحافتی تحریروں میں داخل کیا گیا (کرسٹینا لیمب اور ایما ڈنکن اس کی مثال ہیں) تو چند لوگوں نے اسے چیلنج کیا۔ گزشتہ چند سالوں میں اینڈریو رابرٹ جیسے کچھ نوجوان برطانوی مورخوں نے تقسیم ہند کی روایت دیو مالا کو مسترد کر دیا اور اس عمل میں ماؤنٹ بیٹن کے کردار کی خوب خبر لی۔ ارون شورائی جیسے ہندو اور ایم جے اکبر جیسے مسلمان دونوں نے جناح کے بارے میں منفی معیار والے موقف کو قبول کیا۔ تاہم کچھ نمایاں ہندوستانیوں، جن میں نرد چودھری، راج موہن گاندھی اور ایم ایم سروائی شامل ہیں، نے اس سٹیریو ٹائپ معیار کو چیلنج کیا ہے۔

نرد چودھری نے اپنی سٹڈی آف انڈیا فرام 1921-52ء”دی ہینڈ گریٹ انارک“ میں لکھا ہے کہ ”محمد علی جناح وہ واحد آدمی ہے جو ہندوستان میں برطانوی استعمار کے ذلت آمیز خاتمہ میں کامیابی اور عزت سے باہر آیا“۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں محمد علی جناح کی اتنی خدمت نہیں کی گئی جس کی ضرورت تھی۔ پاکستان اپنی مقامی مارکیٹ میں قائد پر ایک بھی بین الاقوامی معیار کی سوانح عمری پیش نہیں کر سکا۔ قائد اعظم کے بارے میں لکھی جانے والی دو بہترین سوانح عمریاں غیر ملکیوں، ہیکٹر بالیتھو نے 1950ءاور سٹینلے والپرٹ نے دس سال پہلے لکھیں۔ ابھی تک پاکستان اس قابل نہیں ہوا کہ وہ جناح پر ایک ایسی مشہور فلم بنا سکے جس میں جناح کی کہانی بیان کی گئی ہو۔ اٹین بورو کی فلم اس لیے بہت یادہ پاور فل تھی کیونکہ اس نے اس وقت یہ کام کیا جب یہاں مکمل خلا تھا۔

زینت اور بختیار جیسے کئی پاکستانیوں کو یقین ہے کہ پاکستانی سیاستدان جناح کے اعلیٰ تصورات کی وجہ سے مشکل میں ہیں اسی لیے انہوں نے قائد اعظم کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور ان سے عقیدت صرف لفظوں کی حد تک محدود ہے۔ ان کی تصویر کرنسی نوٹ پر ہے یا دفاتر میں دیواروں پر لٹکانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ سوانح عمری کسی ایک فرد کی زندگی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جس میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے دوست کون تھے اور نقاد کون۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ سوانح عمری اور تاریخ اتنی ہی درست ہو جتنا کوئی حقیقت ممکن ہے.... اور وہ ثقافتی اور سیاسی تعصبات کی عکاس نہ ہو.... تو ہمیں اپنی سوچ کے دھاروں اور طریقیاتی پہنچ کو وسیع کرنا ہو گا۔ علاقائی، ثقافتی، بشریات اور عام لوگوں سے انٹرویو کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان چیزوں نے بہت سارے مورخین کی تنگ نظری پر مبنی اور گمراہ کن حقیقتوں کو درست کرنے میں مدد دی ہے۔ کسی بھی طبقے کی طرف سے جاری کردہ دیو مالا، جس میں دوسروں کے کردار کو منفی طور پر اور تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہو، کو چیلنج کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سکولوں اور کالجوں کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے طلبا کو ہمسایہ ملکوں کی ہیرو شخصیات کے بارے میں تعلیم دیں۔ اسرائیل عربوں کے بارے میں، بھارت پاکستانیوں کے بارے میں اور یہ ملک بھی اسی طرح کریں۔

اسی طرح پاپولر ذرائع ابلاغ کو بھی مستقل طور پر یہ یاددہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ مسبوکہ باتیں نہ دہرائیں (مثلاً جناح سرد مہر تھے، وہ کبھی مسکراتے نہیں تھے، مسلم عظمت رفتہ) یہ اختصار نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ ڈیانا اور اس کی پیش رو ایڈوینا کے درمیان صرف ایک نسل کا فاصلہ ہے لیکن معاشرتی اقدار، طاقت اور میڈیا کے اصول و قواعد میں بنیادی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ ایڈوینا اور ماؤنٹ بیٹن نے جو کچھ اس وقت کیا اگر وہ آج کے ثقافتی ماحول میں ایسا کرتے تو فرار نہ پا سکتے۔

برطانیہ اور اس جیسے ممالک، جہاں ایسا دانشورانہ اور ثقافتی رجحان ہے کہ جس میں ہیرو شخصیت کے کپڑے اتارے جاتے ہیں، شاید بہت آگے تک پہنچ چکا ہے۔ وہ تمام لوگ جو ایک مرتبہ ہیرو کے استھان پر رہے ہیں صحافتی بغض اور عداوت کا نشانہ ہیں یا سوانح نگار ان کے کارناموں کے بجائے ان کی جنسی زندگی میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ کوئی بھی نمایاں شخصیات خواہ وہ وزیر اعظم ہو یا شاہی خاندان کا کوئی فرد کیا وہ موجودہ افراتفری کے ماحول میں عداوتی روایت شکنی کے اس ”گٹر پریس“ سے اپنی عزت طویل عرصے تک بچا سکا ہے۔ ایسی عوامی شخصیات کی غیر موجودگی، جن پر ہم بھروسہ کر سکتے ہوں، نے عمومی عالمی خطرات اور روایتی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ، وسیع پیمانے پر پھیلتے لسانی اور مذہبی تشدد نے امن اور بھائی چارے کی دائمی فضا کے بارے میں پریشانی پیدا کر دی ہے۔ اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا۔ سربیا کے صوبہ کوسووو کا میدان جنگ ہو یا یروشلم اور ایودھیا کی عبادت گاہ، یہی ایک وجہ ہے کہ لوگ کیوں ماضی کی آسان اور یقینی دیو مالا کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

مسلم دنیا بھی اپنے استبدادی فوجی آمروں، تنگ ذہن مذہبی شخصیات اور بدعنوان جذبات انگیز خطیبوں کی وجہ سے صلاح الدین ایوبی کی تلاش میں ہے۔ محمد علی جناح کی دوبارہ جانچ پڑتال نہ صرف انصاف بلکہ سچائی کی تلاش کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت جبکہ ہمیں ایک روشن خیال اور دیانتدار و قابل عمل مسلم رہنما کی مثال کی ضرورت ہے وہ بھی مل جائے گی۔

ہمیں اس وقت اپنے دور کو برا اور خبطی کہنے کے بجائے اس میں موجود ان ہیرو شخصیات کو پہچاننے کی ضرورت ہے جو ہمارے درمیان موجود ہیں، جو ان لمحات میں اپنے لوگوں کے لیے لطیف تمناؤں اور آدرشوں کی صورت گری کر سکیں۔

Comments