خفیہ ادارے اور عدلیہ

اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدیوں کا سراغ

روشن لعل

رہائی کے نام پر لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کر دیے اڈیالہ جیل کے 11 قیدیوں کی گمشدگی کا معمہ9دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں بالآخر حل ہوگیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس خلیل الرحمن رمدے اور جسٹس غلام ربانی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے حساس اداروں نے اپنے وکیل راجہ ارشاد کی وساطت سے یہ اعتراف کرلیا کہ اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونے والے گیارہ قیدی ان کی تحویل میں ہیں۔ اس سے پہلے24 نومبر کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی بی کے سربراہان اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق کے ذریعے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے سامنے یہ تحریری بیان دے چکے تھے کہ اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونے والے قیدی اُن کے پاس نہیں ہیں۔ اس تحریر میں حساس اداروں کی طرف سے یہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ عدالت ان اداروں کی براہِ راست جواب طلبی نہیں کرسکتی لہٰذا اس طرح کی کارروائی وفاق پاکستان یا وزارتِ کے سیکرٹری کے توسط سے ہونی چاہیے۔ حساس اداروں کے اس طرح کے اظہار خیال کی وضاحت طلب کرتے ہوئے 25 نومبر کو سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے اٹارنی جنرل کو بتایا کہ آئین اور قانون کے مطابق حساس اداروں کے سربراہان کو کسی قسم کا استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ حساس اداروں کے سربراہوں کو آئین کے آرٹیکل(3)185 اور سپریم کورٹ کے رولز 1980ءکے تحت نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ تین رکنی بنچ کے جج صاحبان نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے اور حساس اداروں کے سربراہان کی توجیہہ کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا تھا کہ کیا وہ آئین اور قانون کا کوئی ایسا حوالہ بیان کرسکتے ہیں جس کی رُو سے ایجنسیوں کو نوٹس نہ بھیجے جاسکتے ہوں۔ اٹارنی جنرل کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا انہوں نے خفیہ اداروں کے سربراہان کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا جواب واپس لے لیا۔ اس کے بعد عدالت نے اس مقدمے کی سماعت 13دسمبر تک ملتوی کر دی۔

13 دسمبر سے قبل ہی اس مقدمے کے حوالے سے اہم موڑ اس وقت آیا جب خفیہ اداروں کے کچھ اعلیٰ اہلکاروں نے 7 دسمبر کو اٹارنی جنرل سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ وہ مقدمہ کی سماعت مقررہ تاریخ سے پہلے چاہتے ہیں کیونکہ لاپتہ قیدیوں کے متعلق کچھ اہم باتیں سامنے آئی ہیں۔ حساس اداروں کی درخواست پر جب سپریم کورٹ نے مقررہ تاریخ سے قبل8 دسمبر کو مقدمہ کی سماعت کی تو ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد نے قیدیوں کی گمشدگی کا راز افشا کرتے ہوئے کہا کہ ان قیدیوں نے اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد خود کو اپنی مرضی سے ایجنسیوں کے اہلکاروں کے بھیس میں آنے والے اپنے دہشت گرد ساتھیوں کے حوالے کیا تھا جو انہیں قبائلی علاقوں میں اس جگہ لے گئے جہاں اس وقت فوجی آپریشن جاری ہے۔ ایجنسیوں کے وکیل نے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ نے جب گمشدہ افراد کے متعلق دریافت کیا تو قبائلی علاقوں میں مصروف فوج نے کئی لوگوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جن میں یہ 11 افراد بھی شامل ہیں۔ راجہ ارشاد نے یہ بھی بتایا کہ اِن گیارہ قیدیوں سے کی گئی تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ ایک فور سٹار جرنیل کے قتل سمیت حمزہ کیمپ کامرہ کمپلیکس اور جی ایچ کیو میں ہونے والے خودکش حملوں جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ راجہ ارشاد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ وہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی طرف سے عدالت کو آگاہ کرتے ہیں کہ اڈیالہ جیل سے لاپتہ قرار دیے گئے 11 افراد زندہ، محفوظ اور ہماری تحویل میں ہیں اور اِن کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے لہٰذاب انہیں لاپتہ نہ سمجھا جائے۔ ایجنسیوں کے وکیل کے سپریم کورٹ میں اس بیان کے بعد تین رکنی بنچ میں شامل فاضل ججوں کا لہجہ اور تاثرات پہلے کی نسبت تبدیل ہو گئے۔ اس بیان کے بعد چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے اقدام کو سراہا اور کہا کہ وہ آرمی اور اس سے متعلقہ اداروں کو سراہتے ہیں جو ملک وقوم کا دفاع کررہے ہیں۔

اس موقع پر لاپتہ قیدیوں کے وکیل الیاس صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدالت کی طرف سے اس سے قبل سخت کارروائی کرنے کے ریمارکس کے بعدہی گمشدہ افراد کے متعلق معلومات کا حصول ممکن ہوا۔ اِن کا کہنا تھا کہ یہ افراد گزشتہ سات ماہ سے لاپتہ تھے، اب اچانک کیسے باز یاب ہوگئے ہیں۔ اُن کا اصرار تھا کہ اس بات کا جواب سرکاری وکیل سے لیا جانا چاہیے۔ الیاس صدیقی کے اس اصرار کے جواب میں جسٹس رمدے کا کہنا تھا کہ اس بات کو چھوڑیں، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کے موکل کا پتہ چل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فوج کی عزت کرتے ہیں، یہ ہمارے بھائی اور بچے ہیں اور ہمارا دفاع کرتے ہیں۔ اس مقدمے کی اب تک کی پیش رفت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ 11 قیدیوں کی اُن کے لواحقین سے ملاقات کرائی جائے۔ اس کے بعد عدالت نے اس مقدمے کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی۔

اس مقدمے کی اب تک کی کارروائی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سپریم کورٹ اڈیالا جیل سے لاپتہ ہونے والے قیدیوں کی گمشدگی اور بازیابی کے حوالے سے ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد کی بیان کردہ باتوں سے مطمئن ہے۔ دوسری طرف لاپتہ قیدیوں کے وکیل الیاس صدیقی کے تاثرات اس کے برعکس ہیں، جن کا یہ خیال ہے کہ عدالت کے سخت لب ولہجہ کی وجہ سے لاپتہ افراد کا سراغ ملنا ممکن ہوا۔ الیاس صدیقی کے موقف سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں لاپتہ قیدی اصل میں کہیں اور نہیں بلکہ پہلے سے ہی خفیہ ایجنسیوں کی تحویل تھے۔

وہ عام لوگ جو اس مقدمے کی کارروائی میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ان کے خیالات ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد کی نسبت لاپتہ قیدیوں کے وکیل الیاس صدیقی کے زیادہ قریب ہیں۔ اس سلسلے میں جن لوگوں کی سوچ الیاس صدیقی سے ہم آہنگ ہے اُن کے خیال میں خفیہ ایجنسیوں نے اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدیوں سے متعلق جو موقف اختیار کیا ہے وہ اصل میں عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے۔ ان لوگوں کی اس سوچ کی وجہ یہ ہے کہ ایجنسیوں نے لاپتہ قیدیوں کے حوالے سے لیے گئے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے فوراً بعد جو ردِ عمل ظاہر کیا اور پھر آخر میں قیدیوں کے اپنی تحویل میں رکھنے سے متعلق جوبیان دیا اُس میں خاصی اونچ نیچ دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے ایجنسیوں کے رویے میں موجود جھول کی وجہ سے ہی یہ خیال عام ہے کہ اگرچہ عدالت نے یہ واضح کردیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کو لوگوں کو اپنی تحویل میں رکھنے یا عدالت کو جواب دینے سے متعلق کوئی ماورائے قانون اختیار حاصل نہیں ہے اس کے باوجود اُن کی بھرپور کوشش ہے کہ اُن کی ماورائے قانون اختیار رکھنے کی حیثیت کو قانون کے غلاف میں رکھ کر یا اس کے بغیر بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہونی چاہےے کہ خفیہ ایجنسیاں جو خود بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شمار ہوتی ہیں وہ کیوں ماورائے قانون اختیار رکھنے کو حق بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی اس کوشش کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سے ہی غیر تحریری طور پر ملک کی دائیں بازو کی سیاسی قیادت، عدلیہ اور انتظامیہ نے صرف مخصوص لوگوں کے خلاف استعمال کیے جانے کی وجہ سے اِن کے ماورائے قانون اختیارات کو حق کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔ خفیہ ایجنسیوں جیسے ریاستی اداروں نے پاکستانی تاریخ کی پہلی پانچ دہائیوں میں اپنے اس غیر تحریری اور غیر تسلیم شدہ حق کو بے دردی سے جمہوریت پسندوں، ترقی پسندوں اور لبرل سوچ رکھنے والوں کے خلاف جس طرح استعمال کیا اور اِن کے مقلد دائیں بازو کے عناصر نے اس کو جس طرح سے نظر انداز کیا اُس کی وجہ سے ہی وہ اب اس حق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِن خفیہ اداروں کے لوگ عدالتوں میں غلط بیانی سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔

جہاں تک خفیہ ایجنسیوں کے ماورائے قانون کردار کو عدالتوں کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے 2006ءکے آخر تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔2007ءکے آغاز یا2006ءکے اختتام پر غالباً پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اعلیٰ عدلیہ نے لوگوں کو ماورائے قانون اپنی تحویل میں رکھنے کی خفیہ ایجنسیوں کی مشق پر واضح سوالیہ نشان لگایا۔ اس کے ساتھ ہی2000ءکی دہائی میں9/11کے واقعہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد دائیں بازو کے سیاستدانوں، صحافیوں اور دانشوروں نے خفیہ ایجنسیوں کے اس طرح کے کردار پر اعتراض ظاہر کرنا شروع کیے۔ اس سے پہلے کے ادوار کو اگر دیکھاجائے تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ جو لوگ اب انسانی حقوق اور قانون کی دہائی دے کر ایجنسیوں کے ماورائے قانون کردار کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں وہ ضیا الحق جیسے ادوار آمریت میں سیاسی جدوجہد کرنے والے جمہوریت پسند لوگوں کے ساتھ ایجنسیوں کے اس طرح کے روا رکھے جانے والے کردار پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ بغلیں بجاتے رہے۔ موجودہ دور میں بھی اگر لاپتہ ہونے والے یا غیر قانونی طور پر تحویل میں رکھے جانے والے لوگوں کو اِن کی مخصوص مذہبی وابستگی اور کردار کی بنا پر تقسیم کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر گوکہ گمشدہ لوگوں کی بازیابی کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اب بھی اُن کی حمایت کا اصل مرکز مخصوص مذہبی فکر رکھنے اور دہشت گردوں کے نظریات سے قربت رکھنے والے لوگ ہیں نہ کہ سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے۔

پاکستان میں لاپتہ ہونے والے افراد میں مخصوص مذہبی سوچ اور دہشت گردوں سے قربت رکھنے والے لوگوں کے علاوہ بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کرنے والے کارکن بھی شامل ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سال2006ءکے آخر سے اعلیٰ عدلیہ نے اِن لاپتہ لوگوں کی بازیابی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور میڈیا بھی اس سلسلے میں خاصا سرگرم رہا ہے، تاہم اس حوالے سے یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اس طرح کی سرگرمی سیاسی جدوجہد کرنے والے بلوچوں کی نسبت مخصوص مذہبی سوچ رکھنے والے لوگوں کے لیے زیادہ کارگر اور سودمند ثابت ہوئی ہے۔ گو کہ 2006ءکے بعد لاپتہ لوگوں کی بازیابی میں عدلیہ کا کردار قابل تحسین رہا ہے لیکن بلوچستان کے لوگ عدلیہ کے اس کردار سے زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ بلوچوں کے اس احساس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جون2010ءمیں جب چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے کوئٹہ کا دورہ کیا تھا تو اس موقع پر لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی عدم بازیابی کو جواز بنا کر بلوچ بار ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے وکیلوں نے چیف جسٹس کی وہاں آمد کے دِن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا تھا۔ اس موقع پر بلوچ بار ایسوسی ایشن کے صدر صادق رئیسانی نے کہا تھا کہ یہ یوم سیاہ لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لے جدوجہد کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے منایا جا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں عدلیہ سمیت ملک میں انسانی حقوق کی بحالی کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیموں پر انہوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔

اس حوالے سے گو کہ بلوچوں کا مذکورہ احساس خاص اہمیت کا حامل ہے اس کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی اور اس سے متعلق خفیہ ایجنسیوں کے کردار کو زیر بحث لانے میں اعلیٰ عدلیہ نے جوکردار ادا کیا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں مزید بہتری کے لیے عدلیہ اور سول سوسائٹی سمیت پارلیمنٹ کے مزید فعال کردار کی ابھی مزید گنجائش اور ضرورت موجود ہے۔

Comments